13 ستمبر، 2016

کبھی پلٹ کے خوشی کی طرف نہیں دیکھا


غزل

کبھی پلٹ کے خوشی کی طرف نہیں دیکھا
اسیرِ غم تھے ہنسی کی طرف نہیں دیکھا
ہمہیں سکت نہ تھی کہنے کی اور اس نے بھی
 ہماری تشنہ لبی کی طرف نہیں دیکھا
وہ جس کے واسطے کاٹا ہے زندگی کا سفر
بوقت نزع اسی کی طرف نہیں دیکھا
جناب شیخ کو غم ہے اثر نہ ہونے کا
کبھی سخن کی کجی کی طرف نہیں دیکھا
مگن ہم اتنے ہوئے نیکیاں کمانے میں
کسی کی فاقہ کشی کی طرف نہیں دیکھا
محبتوں کے اجالوں میں جب سے آئے ہیں
 پلٹ کے تیرہ شبی کی طرف نہیں دیکھا
تمہارا شہر نذیری عجیب ہے جس میں
  کسی نے مڑ کے کسی کی طرف نہیں دیکھا