5 اکتوبر، 2016

جب جب مرے لہجے سے حلاوت نکل آئی


جب جب مرے لہجے سے حلاوت نکل آئی
دشمن کے ارادوں سےمروت نکل آئی

اے دل دم آخر سہی وہ آئے ہیں ملنے
آخر ترے تسکین کی صورت نکل آئی

بچوں کو نہیں یاد ہیں اسلاف کے قصے
تعلیم میں یہ کون سی جدت نکل آئی

خود پر ذرا آنچ آئی تھی اور شیخ کہ منہ سے
اک واسطہ بن کر کے شریعت نکل آئی 

 پھر پیار جتانے لگا وہ دوست پرانا
لگتا ہے کہ پھر کوئی ضرورت نکل آئی

تم اس کو نیا دور بتاتے ہو نذیری
سڑکوں پہ شریفوں کی شرافت نکل آئی 

مسیح الدین نذیری

کوئی تبصرے نہیں: