جب جب مرے لہجے سے حلاوت نکل آئی
دشمن کے ارادوں سےمروت نکل آئی
اے دل دم آخر سہی وہ آئے ہیں ملنے
آخر ترے تسکین کی صورت نکل آئی
بچوں کو نہیں یاد ہیں اسلاف کے قصے
تعلیم میں یہ کون سی جدت نکل آئی
خود پر ذرا آنچ آئی تھی اور شیخ کہ منہ سے
اک واسطہ بن کر کے شریعت نکل آئی
پھر پیار جتانے لگا وہ دوست پرانا
لگتا ہے کہ پھر کوئی ضرورت نکل آئی
تم اس کو نیا دور بتاتے ہو نذیری
سڑکوں پہ شریفوں کی شرافت نکل آئی
مسیح الدین نذیری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں