نہ کر اب اور میری اشک پیمائی بھرم رکھ لے
مجھے رسوا نہ کر اب اور اے بھائی بھرم رکھ لے
چلا آتا ہوں خوشیاں دیکھنے اوروں کی شادی میں
کہ شاید دل کے موسم کا یہ شہنائی بھرم رکھ لے
بہت مغرور کہلاتا ہوں یاروں سے نہیں ملتا
میری غربت کا تو اے میری تنہائی بھرم رکھ لے
میں کس کس بات کا دوں گا جواب ایسے زمانے کو
پلٹ مت صرف باقی رکھ شناسائی بھرم رکھ لے
بچا رکھا ہے میں نے اپنا دامن ساری دنیا سے
مجھے مت چھیڑ اے موجِ زلیخائی بھرم رکھ لے
ٹھکانہ ڈھونڈھنے آیا تھا وہ میری پناہوں میں
کہاں ممکن پہاڑوں کا کوئی رائی بھرم رکھ لے
تمہارے زخم سارے آشکارا ہوتے جاتے ہیں
نذیریؔ اور مت کر خامہ فرسائی بھرم رکھ لے
مسیح الدین نذیریؔ
9321372295
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں