5 اکتوبر، 2016

نہ کر اب اور میری اشک پیمائی بھرم رکھ لے


نہ کر اب اور میری اشک پیمائی بھرم رکھ لے
مجھے رسوا نہ کر اب اور اے بھائی بھرم رکھ لے

چلا آتا ہوں خوشیاں دیکھنے اوروں کی شادی میں
کہ شاید دل کے موسم کا یہ شہنائی بھرم رکھ لے

بہت مغرور کہلاتا ہوں یاروں سے نہیں ملتا
میری غربت کا تو اے میری تنہائی بھرم رکھ لے

میں کس کس بات کا دوں گا جواب ایسے زمانے کو
پلٹ مت صرف باقی رکھ شناسائی بھرم رکھ لے

بچا رکھا ہے میں نے اپنا دامن ساری دنیا سے
مجھے مت چھیڑ اے موجِ زلیخائی بھرم رکھ لے

ٹھکانہ ڈھونڈھنے آیا تھا وہ میری پناہوں میں
کہاں ممکن پہاڑوں کا کوئی رائی بھرم رکھ لے

تمہارے زخم سارے آشکارا ہوتے جاتے ہیں
نذیریؔ اور مت کر خامہ فرسائی بھرم رکھ لے

مسیح الدین نذیریؔ
9321372295

کوئی تبصرے نہیں: