5 اکتوبر، 2016

بس کہ روداد ہے ہے یہ ان سے شناسائی کی


بس کہ روداد ہے ہے یہ ان سے شناسائی کی
اپنا دل ہار گئے دہر میں رسوائی کی

جس کی غربت کے سبب بیٹھی ہو بیٹی سر  پر
اس سے مت پوچھئے بارات کی شہنائی کی

کرکے ناسور جگر کہتے ہو سب ٹھیک تو ہے
خوب مرحم رکھا اور خوب مسیحائی کی

بس یہی بھول کہ ہم ترکِ وفا کر نہ سکے
ہم نے تا عمر اسی بھول کی بھرپائی کی

ماں کا منت کشِ احسان ہے سب کچھ اپنا
ماں نے ہر وقت میری حوصلہ افزائی کی

میکدہ سے تمہیں دیکھا ہے نکلتے ہم نے 
شیخ جی اب نہ قسم کھاؤ جبیں سائی کی

اب درندوں کو کوئی شرفِ تفاخر نہ رہا
آج اک بھائی نے جاں لے لی سگے بھائی کی

بے وجہ پھرسے ستارے  سرِ مزگاں  ہوں گے
بات مت کیجئے مغرور کی ہرجائی کی

آہی جائیگی یقینا میرے محبوب کی بات
بات نکلی ہے میری قوتِ گویائی کی

رہ گئی کوئی کسر اور نذیریؔ شاید
اور پھر مان کے چلئے دلِ سودائی کی

مسیح الدین نذیریؔ

کوئی تبصرے نہیں: