بس کہ روداد ہے ہے یہ ان سے شناسائی کی
اپنا دل ہار گئے دہر میں رسوائی کی
جس کی غربت کے سبب بیٹھی ہو بیٹی سر پر
اس سے مت پوچھئے بارات کی شہنائی کی
کرکے ناسور جگر کہتے ہو سب ٹھیک تو ہے
خوب مرحم رکھا اور خوب مسیحائی کی
بس یہی بھول کہ ہم ترکِ وفا کر نہ سکے
ہم نے تا عمر اسی بھول کی بھرپائی کی
ماں کا منت کشِ احسان ہے سب کچھ اپنا
ماں نے ہر وقت میری حوصلہ افزائی کی
میکدہ سے تمہیں دیکھا ہے نکلتے ہم نے
شیخ جی اب نہ قسم کھاؤ جبیں سائی کی
اب درندوں کو کوئی شرفِ تفاخر نہ رہا
آج اک بھائی نے جاں لے لی سگے بھائی کی
بے وجہ پھرسے ستارے سرِ مزگاں ہوں گے
بات مت کیجئے مغرور کی ہرجائی کی
آہی جائیگی یقینا میرے محبوب کی بات
بات نکلی ہے میری قوتِ گویائی کی
رہ گئی کوئی کسر اور نذیریؔ شاید
اور پھر مان کے چلئے دلِ سودائی کی
مسیح الدین نذیریؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں