چڑھا ہوا تھا جو دریا اتر گیا کیسے
انا پرستی کا احساس مر گیا کیسے
نہیں ہے آپ کی صحبت تو اور پھر کیا ہے
مزاج شیخِ حرم آپ پر گیا کیسے
وہ مسکرائے کسی نے نہ دیکھا میرے سوا
زمانہ سوچ میں ہے میں سنور گیا کیسے
محبتوں کے سفر میں جنون حاوی ہو
خرد کے کاندھے پہ وہ بیٹھ کر گیا کیسے
ملے تھے ان سے تو پھر اپنا ہوش بھی نہ رہا
میں سوچتاہوں کہ لوٹا تو گھر گیا کیسے
اسی لئے اسے حیرت ہے دیکھ کر مجھ کو
کہ میرا زخم تو گہرا تھا بھر گیا کیسے
فریب تھا نہ اگر دوستی کا پھر کیا تھا
اِدھر کا راز نذیریؔ اُدھر گیا کیسے
مسیح الدین نذیریؔ
9321372295
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں