وہ دے گیا دغا تو مجھے سوچنا پڑا
اپنوں نے کی جفا تو مجھے سوچنا پڑا
شیخِ حرم کی مان کے چلتا رہا مگر
جب ڈوبنے لگا تو مجھے سوچنا پڑا
میں جس کو اپنی جان سمجھتا تھا وہ مجھے
بے جان کرگیا تو مجھے سوچنا پڑا
میں صبر کر رہا تھا کہ انجام خیر ہو
دکھ حد سے جب بڑھا تو مجھے سوچنا پڑا
دشمن کی دشمنی کہ مجھے کوئی غم نہ تھا
اپنوں نے غم دیا تو مجھے سوچنا پڑا
انسان اپنی حد سے جب آگے نکل گیا
بننے لگا خدا تو مجھے سوچنا پڑا
مجھ کو تھا یہ گماں کہ میں اس کو بھلا چکا
جب یاد آگیا تو مجھے سوچنا پڑا
بخشے تھے میں نے جس کی اڑانوں کو بال و پر
مجھ پر جھپٹ پڑا تو مجھے سوچنا پڑا
اپنے اصول مجھ کو نذیریؔ عزیز تھے
جب میرا گھر جلا تو مجھے سوچنا پڑا
مسیح الدین نذیریؔ
9321372295
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں