5 اکتوبر، 2016

وہ دے گیا دغا تو مجھے سوچنا پڑا


وہ دے گیا دغا تو مجھے سوچنا پڑا
اپنوں نے کی جفا تو مجھے سوچنا پڑا

شیخِ حرم کی مان کے چلتا رہا مگر
جب ڈوبنے لگا تو مجھے سوچنا پڑا

میں جس کو اپنی جان سمجھتا تھا وہ مجھے
بے جان کرگیا تو مجھے سوچنا پڑا

میں صبر کر رہا تھا کہ انجام خیر ہو
دکھ حد سے جب بڑھا تو مجھے سوچنا پڑا

دشمن کی دشمنی کہ مجھے کوئی غم نہ تھا
اپنوں نے غم دیا تو مجھے سوچنا پڑا

انسان اپنی حد سے جب آگے نکل گیا
بننے لگا خدا تو مجھے سوچنا پڑا

مجھ کو تھا یہ گماں کہ میں اس کو بھلا چکا
جب یاد آگیا تو مجھے سوچنا پڑا

بخشے تھے میں نے جس کی اڑانوں کو بال و پر
مجھ پر جھپٹ پڑا تو مجھے سوچنا پڑا

اپنے اصول مجھ کو نذیریؔ عزیز تھے
جب میرا گھر جلا تو مجھے سوچنا پڑا

مسیح الدین نذیریؔ
                         9321372295

کوئی تبصرے نہیں: