5 اکتوبر، 2016

دیکھا جب ان کے چہرے کو سارے منظر بھول گئے


دیکھا جب ان کے چہرے کو سارے منظر بھول گئے
کیا کیا ہم نے سوچا تھا ان کے پاس آکر بھول گئے

کب ان کا دیدار ہوا تھا ہم کو کچھ بھی ہوش نہ تھا
دل کی ساری باتیں ان سے کہنا تھا پر بھول گئے

حسنِ شگفتہ نازِ گلستاں آگئے اک دن گلشن میں
کلیوں کو کچھ یاد نہیں تھا ہنسنا گلِ تر بھول گئے

لوٹ رہے تھے ان سے مل کر ایسے چھائے تھے وہ دل پر
یاد رہا بس ان کا چہرہ اپنا ہی گھر بھول گئے

ایک چھلکتا سا پیمانہ ان کی آنکھیں ہیں میخانہ
رندوں نے جب آنکھیں دیکھیں بادہ و ساغر بھول گئے

بل کھاتے زلفیں لہراتے آئے نذیریؔ وہ اٹھلاتے 
شعر و ادب کی ساری باتیں سارے سخنور بھول گئے

مسیح الدین نذیریؔ
9321372295

کوئی تبصرے نہیں: