دیکھا جب ان کے چہرے کو سارے منظر بھول گئے
کیا کیا ہم نے سوچا تھا ان کے پاس آکر بھول گئے
کب ان کا دیدار ہوا تھا ہم کو کچھ بھی ہوش نہ تھا
دل کی ساری باتیں ان سے کہنا تھا پر بھول گئے
حسنِ شگفتہ نازِ گلستاں آگئے اک دن گلشن میں
کلیوں کو کچھ یاد نہیں تھا ہنسنا گلِ تر بھول گئے
لوٹ رہے تھے ان سے مل کر ایسے چھائے تھے وہ دل پر
یاد رہا بس ان کا چہرہ اپنا ہی گھر بھول گئے
ایک چھلکتا سا پیمانہ ان کی آنکھیں ہیں میخانہ
رندوں نے جب آنکھیں دیکھیں بادہ و ساغر بھول گئے
بل کھاتے زلفیں لہراتے آئے نذیریؔ وہ اٹھلاتے
شعر و ادب کی ساری باتیں سارے سخنور بھول گئے
مسیح الدین نذیریؔ
9321372295
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں