16 اکتوبر، 2016

ہوا ہے درد کا احساس کم آہستہ آہستہ


ہوا ہے درد کا احساس کم آہستہ آہستہ
کہ عادی ہوگئے زخموں کے ہم آہستہ آہستہ

نیا وارد ہوا ہے آپ کی دنیا میں جانے دو 
ادب سیکھے گا دل شیخِ حرم آہستہ آہستہ

ابھی تم عشق کے آداب سارے سیکھ جائوگے
سمجھ جائو گے تم زلفوں کے خم آہستہ آہستہ

مداوا وقت ہے ہر ایک غم کا ہر مصیبت کا
بھلادیں گے کبھی تیرے بھی غم آہستہ آہستہ

بدل جاتے ہیں دن اچھے برے یکساں نہیں رہتے
گزر جائیں گے ہر صدمے سے ہم آہستہ آہستہ

نذیریؔ ایک دن فرقت تمہیں بھی مار ڈالے گی
تمہارا بھی نکل جائیگا دم آہستہ آہستہ

کوئی تبصرے نہیں: