ہوا ہے درد کا احساس کم آہستہ آہستہ
کہ عادی ہوگئے زخموں کے ہم آہستہ آہستہ
نیا وارد ہوا ہے آپ کی دنیا میں جانے دو
ادب سیکھے گا دل شیخِ حرم آہستہ آہستہ
ابھی تم عشق کے آداب سارے سیکھ جائوگے
سمجھ جائو گے تم زلفوں کے خم آہستہ آہستہ
مداوا وقت ہے ہر ایک غم کا ہر مصیبت کا
بھلادیں گے کبھی تیرے بھی غم آہستہ آہستہ
بدل جاتے ہیں دن اچھے برے یکساں نہیں رہتے
گزر جائیں گے ہر صدمے سے ہم آہستہ آہستہ
نذیریؔ ایک دن فرقت تمہیں بھی مار ڈالے گی
تمہارا بھی نکل جائیگا دم آہستہ آہستہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں