6 اکتوبر، 2016

طیبہ کی رشکِ خلد فضا اپنے پاس ہے


طیبہ کی رشکِ خلد فضا اپنے پاس ہے
ہاں روضۂ رسولِ خدا اپنے پاس ہے

دشمن بھی مانتے ہیں جسے صادق و امین
واللہ ایسا راہ نما اپنے پاس ہے

آؤ تمہیں بتائوں ہدایت کا راستہ
اصحابِ باصفا کا پتہ اپنے پاس ہے

بھٹکیں گے کس طرح شبِ ظلمت میں ہم کبھی
اصحابِ مصطفی کی ضیا اپنے پاس ہے

غارِ حرا میں سورۂ اقرا کی شکل میں
روشن کیا گیا جو دیا اپنے پاس ہے

بو بکر ہوں عمر ہوں کہ عثماں ہوں یا علی
ایمان ان کا ان کی ادا اپنے پاس ہے

تاریخ ہم سے آنکھ ملائیگی کس طرح
وہ یادگار ثور و حرا اپنے پاس ہے

تم نے حسین ابن علی کو کیا ہے قتل
اور کہہ رہے ہو رسمِ عزا اپنے پاس ہے

تم ذاتِ عائشہ پہ اٹھاتے ہو انگلیاں
کہتے ہو مصطفی کی ردا اپنے پاس ہے

بے شرم ہو کہ پاسِ خلافت نہیں تمہیں
اس پر غرور ہے کہ ولا اپنے پاس ہے

اصحابِ مصطفی بھی گوارہ نہیں تمہیں
اور کہہ رہے ہو راہِ ہدی اپنے پاس ہے

بنیاد میں ہی تم نے تقیہ پکڑلیا
تم خود ہی غور کر لو کہ کیا اپنے پاس ہے

اے کفر ہم محمدِ عربی کے ہیں غلام
تجھ کو تلاشِ حق ہے تو آ اپنے پاس ہے

ہے مقصدِ حیات بھی روحِ غذا بھی ہے
یہ جو درودِ صل علی اپنے پاس ہے

کوہِ صفا سے بن کے تباہی کا اک پیام
جو کفر پر گری وہ صدا اہےے پاس ہے

کیا خوف ہم کو اور نذیریؔ کسی کا ہو
جب دامنِ رسولِ خدا اپنے پاس ہے


مسیح الدین نذیری.

کوئی تبصرے نہیں: