18 جولائی، 2017

بس ذرا دیر کو آؤں گا چلا جاؤں گا


غزل
 
بس ذرا دیر کو آؤں گا چلا جاؤں گا
اپنی روداد سناؤں گا چلا جاؤں گا

اپنی محفل میں ذرا دیر اجازت دیدے
کون کہتا ہے نہ جاؤں گا چلا جاؤں گا

وقت بے وقت ترے شہر میں آکر میں بھی
صرف اک ٹیس جگاؤں گا چلا جاؤں گا

 ترے کانوں میں محبت سے بھرا گیت کوئی
گاکے اک بار سناؤں گا چلا جاؤں گا

کوئی روکے بھی تو اب میں نہیں رکنے والا
صرف احساس جگاؤں گا چلا جاؤں گا

 میں کہاں جاؤں گا کس دشت میں اب رہنا ہے
شہرکو اب نہ بتاؤں گا چلا جاؤں گا

 بھوک و افلاس کی ماری ہوئی اس دنیا میں
اپنا منہ پھر نہ دکھاؤں گا چلا جاؤں گا

 شہرِ نفرت میں محبت کا اٹھا کر جھنڈا
پیار کے پھول کھلاؤں گا چلا جاؤں گا

 غم دنیا غم عقبی غم فردا.  امروز
اتنے غم کیسے اٹھاؤں گا  چلا جاؤں گا

میکدہ سے میں تہی دست نہیں جاسکتا
پی کے جب وجد میں آؤں گا چلا جاؤں گا

 وادی عشق میں آیا ہوں نذیری میں بھی
بس ذرا ہوش گنواؤں گا چلاؤں گا
        مسیح الدین نذیری

کوئی تبصرے نہیں: