20 اگست، 2017

اداسیوں میں ہی اب کہ بہار گذرے گی

اداسیوں میں ہی اب کہ بہار گذرے گی
یہ رت جدائی میں پھر ایک بار گذرے گی

گذر تو جائیگی رکتی کہاں ہے عمر مگر
ترے بغیر بہت سوگوار گذرے گی

ہوا چلی ہے تری یاد کے شگوفوں کی
دلوں کو کرتے ہوئے مشک بار گذرے گی

اسی کو لوگ محبت کا نام دیتے ہیں
یہ لگ رہا ہے مجھے جاں سے مار گذرے گی

ابھی گذرتی ہے یہ عمر روز مر مر کے
ملیں گے وہ تو بہت شاندار گذرے گی

چراغ یاد کا بجھنے نہ دیں گے تا بہ سحر
کچھ اس طرح سے شبِ انتظار گذرے گی

جناب حضرت نازش کو کچھ نہ تھامعلوم
نظر کسی کی کلیجے کے پار گذرے گی

کوئی تبصرے نہیں: