اداسیوں میں ہی اب کہ بہار گذرے گی
یہ رت جدائی میں پھر ایک بار گذرے گی
گذر تو جائیگی رکتی کہاں ہے عمر مگر
ترے بغیر بہت سوگوار گذرے گی
ہوا چلی ہے تری یاد کے شگوفوں کی
دلوں کو کرتے ہوئے مشک بار گذرے گی
اسی کو لوگ محبت کا نام دیتے ہیں
یہ لگ رہا ہے مجھے جاں سے مار گذرے گی
ابھی گذرتی ہے یہ عمر روز مر مر کے
ملیں گے وہ تو بہت شاندار گذرے گی
چراغ یاد کا بجھنے نہ دیں گے تا بہ سحر
کچھ اس طرح سے شبِ انتظار گذرے گی
جناب حضرت نازش کو کچھ نہ تھامعلوم
نظر کسی کی کلیجے کے پار گذرے گی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں