30 مارچ، 2018

پرانے زخم سبھی ہوگئے ہیں مدھم پھر


پرانے زخم سبھی ہوگئے ہیں مدھم پھر
لگادے زخم نیا کوئی دے نیا غم پھر

اتر کے آئیگی پھر چاندنی مرے آنگن
رہیگی گھر میں ترے پائلوں کی چھم چھم پھر

وہ جس پہ چل کے نشاں منزلوں کا ملتا تھا
بھٹک گیا اسی رستے سے ابن آدم پھر

نہ جانے کیا تھا ترے اک حسیں تبسم میں
محبتوں کی ابھرنے لگی ہے سرگم پھر


خدا نے چاہا تو پھر رونقیں بھی لوٹیں گی
مزہ بہار کا لوٹیں گے مل کے باہم پھر

 وہ زخم زخم وجود اپنا لے کے لوٹ آنا
کسی کا آکے لگانا شفا کا مرہم پھر

 تمہارے آنے سے جو ایک بار آیا تھا
محبتوں کا نہ دیکھاگیا وہ موسم پھر

یہی خدا سے مری التجا ہے لوٹ آئے
مرے وطن میں نذیری بقائے باہم پھر

کوئی تبصرے نہیں: