30 مارچ، 2018

دو گھڑی دیکھ نہ پائے وہ اٹھا کر آنکھیں


دو گھڑی دیکھ نہ پائے وہ اٹھا کر آنکھیں
چل دیئے موڑ کے منہ مجھ سے چھپا کر آنکھیں

ہم کہ برسوں میں نہ کہہ پائے کہانی دل کی
اور وہ کہہ گئے ہر بات جھکا کر آنکھیں

شہر در شہر بہت چرچا ہے گہرائی کا
سوچتا ہوں کبھی دیکھ آؤں میں جاکر آنکھیں

اپنے ماں باپ کے چہرے کی زیارت کرکے
تو اے خوش بخت سدا تیز کیا کر آنکھیں

سیکھ جاتے ہیں جو آنکھوں کی کہانی پڑھنا
ان سے کس طرح رکھے کوئی چھپا کر آنکھیں

صاف دکھتا ہے ورق اس میں کتاب دل کا
چھوڑ ان سارے جھمیلوں کا پڑھا کر آنکھیں

ایک طوفان بپا کرگئے سینے میں مرے
اک شرارت سے وہ تھوڑی سی دباکر آنکھیں

میرا دشمن بھی نذیری عجب انداز کا ہے
بات کرتا ہی نہیں مجھ سے ملا کر آنکھیں

کوئی تبصرے نہیں: