ایک دن ہم بھی لب ہلا بیٹھے
پھول سے زخم ہم بھی کھا بیٹھے
پاس تیرے جہاں کی دولت ہے
پاس اپنے جہاں بلا بیٹھے
اس نے منزل کو پالیا اپنی
اور میں سوچتا رہا بیٹھے
ہم تمہاری گلی میں کیا آئے
پاس جو کچھ تھا سب گنوا بیٹھے
زندگی سے الجھ کے آیا ہوں
لوگ کہتے ہیں مر گیا بیٹھے
اس کے پیچھے بھی ایک دنیا ہے
واعظا بات مت بنا بیٹھے
وہ نذیری غزل سمجھتے رہے
ہم انھیں حالِ دل سنا بیٹھے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں