تجھے گلے سے لگاؤں کہ اجتناب کروں
تمہارے زخم کا اے یار کیا حساب کروں
عذاب جھیلا ہے اک عمر میں نے قسطوں میں
میں کس کے نام پہ یہ عمر انتساب کروں
کچھ اجنبی بھی ہیں موجود تیری محفل میں
میں اپنے زخم چھپاؤں کہ بے حجاب کروں
جگر میں آگ ہنسی لب پہ , گھٹ کے مرنا ہے
حیات کیوں نہ میں اپنی کھلی کتاب کروں
ابھی تو عمر ہے الجھی ہوئی سوالوں میں
سوال ختم تو ہو عرض پھر جواب کروں
یہی ہے طرز نذیری اسی کا رونا ہے
عبث حیات کروں خواہش ثواب کروں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں