۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ مجھ کو جب ملا تو مجھے سوچنا پڑا
قسمت کا در کھلا تو مجھے سوچنا پڑا
دل اور میرے بیچ بہت کشمکش رہی
دل ضد پہ اڑ گیا تو مجھے سوچنا پڑا
کیا جانے کیا ہوا کہ وہ اک شخص دفعتاً
دل میں سماگیا تو مجھے سوچنا پڑا
اک روز اس سے بات نہ کرنے کی ٹھان لی
جب سونہیں سکا تو مجھے سوچنا پڑا
دو دن کا راہ و ربط ہی بنیاد بن گیا
وہ مجھ پہ چھا گیا تو مجھے سوچنا پڑا
میں نے اسے بھلانے کی کوشش ہزار کی
ممکن نہیں رہا تو مجھے سوچنا پڑا
میں مطمئن تھا اور مرا دل بھی تھا مطمئن
جب اس طرح ہوا تو مجھے سوچنا پڑا
مینائے زندگی جو نذیری چھلک پڑا
چھانے لگا نشہ تو مجھے سوچنا پڑا
مسیح الدین نذیری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں