............غزل...............
یاروں میں میری پھر سے پزیرائی بہت ہے
پھر میرے لئے ڈر ہے کہ رسوائی بہت ہے
چاہت بھی عجب کھیل ہے برسوں نہیں ہوتی
ہوتی ہے تو اک پل کی شناسائی بہت ہے
خود ہم نے اسے دور ہی رکھا ہے وگرنہ
دنیا تو ہمارے لئے خود آئی بہت ہے
دولت کو نہ معیار بناؤ میرے یارو
دولت میں یہ اک عیب ہے ہرجائی بہت ہے
اے دوست مرے عشق کا مفہوم سمجھ لے
یہ عشق وہ دریا ہے کہ گہرائی بہت ہے
تم پہلا قدم اپنا اٹھاؤ تو کرو بات
پہلے سے یہ کیا شور کہ اونچائی بہت ہے
اس بھیڑ میں بھی اپنا نہیں کوئی نذیری
اس شہر سے اب نکلو کہ تنہائی بہت ہے
مسیح الدین نذیری
9321372295
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں