7 جون، 2018

اگر کچھ اور چلتا ان نظاروں سے نکل جاتا


اگر کچھ  اور چلتا ان نظاروں سے نکل جاتا
میں شاید زندگی تیری بہاروں سے نکل جاتا

اسے تھا ڈوبنے کا شوق بھی اور ڈر بھی اتنا تھا
جب دریا میں جاتا تھا کناروں سے نکل جاتا

مصمم عزم ہوتا نوجواں پھر قوم کا اپنی
ٹھہرتا چاند پر جاکر ستاروں سے نکل جاتا

مجھے دشمن کی طاقت سے نپٹنا خوب آتا تھا
یہ بازی جیت لیتا میں جو یاروں سے نکل جاتا

نذیری موت ڈیرے ڈال دیتی شہر غربت میں
غمِ انسانیت گر غمگساروں سے نکل جاتا
.

مسیح الدین نذیری

کوئی تبصرے نہیں: