اگر کچھ اور چلتا ان نظاروں سے نکل جاتا
میں شاید زندگی تیری بہاروں سے نکل جاتا
اسے تھا ڈوبنے کا شوق بھی اور ڈر بھی اتنا تھا
جب دریا میں جاتا تھا کناروں سے نکل جاتا
مصمم عزم ہوتا نوجواں پھر قوم کا اپنی
ٹھہرتا چاند پر جاکر ستاروں سے نکل جاتا
مجھے دشمن کی طاقت سے نپٹنا خوب آتا تھا
یہ بازی جیت لیتا میں جو یاروں سے نکل جاتا
نذیری موت ڈیرے ڈال دیتی شہر غربت میں
غمِ انسانیت گر غمگساروں سے نکل جاتا
.
مسیح الدین نذیری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں