مصرعۂ طرح
” میں کس سے کہتا کوئی ہم زبان تھا ہی نہیں “
کلام ۔ محمد عبدان عابدؔ کوپا گنج
دل و دماغ کے اندر گمان تھا ہی نہیں
تمہارے جیسا کوئی مہربان تھا ہی نہیں
وہیں سے اٹھتی ہیں امن و اماں کی باتیں بھی
جہاں کبھی کوئی دارالامان تھا ہی نہیں
ہماری قوم کو اس طرح تم ستاؤ گے
ہمارے لوگوں کا اس پر دھیان تھا ہی نہیں
جہاں پہ ہوتی ہیں تخریب کاریاں دن رات
کبھی ہمارا وہاں پر مکان تھا ہی نہیں
کھنگالو ملک کی تاریخ جان جاؤ گے
ہمارے جیسا یہاں پاسبان تھا ہی نہیں
تھے متحد تو حویلی میں دن گذرتے تھے
ہمارے سرپہ کھلا آسمان تھا ہی نہیں
جو جی رہے ہیں کھلے آسمان کے نیچے
سروں پہ انکے کبھی سائبان تھا ہی نہیں
یہی وجہ ہے کہ میں سرخرو ہوں اے لوگوں!
کبھی کہیں مرا جھوٹا بیان تھا ہی نہیں
غم حیات کا لیکر گیا تھا افسانہ
”میں کس سے کہتا کوئی ہم زبان تھا ہی نہیں“
اسی وجہ سے کہیں رک نہیں سکے عابدؔ
تمہارے شہر کے اندر امان تھا ہی نہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں