31 جولائی، 2019

گناہ کرنےسےپہلےدھیان تھاہی نہیں ، طارق عمر

غزل

گناہ کرنےسےپہلےدھیان تھاہی نہیں
کہ یہ عمل مرےشایانِ شان تھاہی نہیں

میں اجنبی تھاکوئی ترجمان تھاہی نہیں
”میں کس سےکہتاکوئی ہم زبان تھاہی نہیں“

خداسےمانگی مصیبت میں جب مددہم نے
ملی وہاں سےجہاں سےگمان تھاہی نہیں

جوڈرسےموت کےمیدانِ جنگ سےبھاگے
ہماری فوج میں ایساجوان تھاہی نہیں

وہ قافلہ بھلامنزل کوکس طرح پاتا
کہ جس کےپاس کوئی پاسبان تھاہی نہیں

وہ جس کےواسطےہم نےسجائی تھی محفل
سبھی تھےایک وہی درمیان تھاہی نہیں

دکھایاجس نےبھی دل والدین کااپنے
کبھی زمانےمیں وہ کامران تھاہی نہیں

لڑافقط وہی شیروں کی طَرح دشمن سے
کہ جس کےدل میں مکیں خوفِ جان تھاہی نہیں

خدانےبخشاعدم سےوجوددنیاکو
کہ کائنات کانام ونشان تھاہی نہیں

شکارکرتاتوکس طرح کرتاشہزادہ
کمان سخت تھابازومیں جان تھاہی نہیں

میں کیسےسیکھتابغض وعداوت ونفرت
کتابِ عشق میں اسکابیان تھاہی نہیں

کِسےسناتاغزل اپنی شہرمیں طارقؔ
کوئی بھی واقفِ اردوزبان تھاہی نہیں

محمدطارقؔ عمر

کوئی تبصرے نہیں: