*سیرِ غزل* سلسلہ (1)
ابوسعد وصیؔ معروفی
شورشِ دہر ہے مہیب، رہے
دل میں میرے مرا حبیب رہے
جب کسی بات پہ ہوئی تکرار
ہم خطا کار وہ مصیب رہے
جن کے دل میں غنا کی دولت تھی
دیکھا اکثر انھیں غریب رہے
ہم وہ جاہل ہیں کہ جو سنتے نہیں
کوئی واعظ رہے خطیب رہے
چل دیئے چھوڑ کر سب اہل غرض
کل تلک جو مرے قریب رہے
اب کہاں خوفِ قلتِ احباب
پہلے تنہا تھے جب غریب رہے
جس نے ماں کو ہمیشہ خوش رکھا
غیر ممکن ہے بد نصیب رہے
عاشقی تو مرض ہی ایسا ہے
جس سے حیران ہر طبیب رہے
ظلم سہتے گئے ہر اک ان کا
ہم بھی کتنے وصیؔ عجیب رہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں