12 جولائی، 2019

یہی دنیا ہے دنیا میں کسی کا کیا بھروسہ ہے

مینائے غزل 2
..........غزل......... 

یہی دنیا ہے دنیا میں کسی کا کیا بھروسہ ہے
سمندر کا ٹھکانہ کیا ندی کا کیا بھروسہ ہے

اسی خاطر ہیں عادی میرے بچے فقر و فاقہ کے
میری غربت تری کم مائیگی کا کیا بھروسہ ہے

ہے جب تک سانس باقی مسکراہٹ بانٹتے چلئے
کہاں تک ساتھ ہے اس زندگی کا کیا بھروسہ ہے

ابھی سنجیدگی کا دور ہے دل کی سنا ڈالیں 
مزاجِ یار کی سنجیدگی کا کیا بھروسہ ہے

نہ جانے دامن انسانیت کب تار کرڈالے
تمہارے شہر کی اس روشنی کا کیا بھروسہ ہے

نوازے گا کسے اور وہ کسے محروم کردے گا
امیرِ شہر کی دریادلی کا کیا بھروسہ ہے

بدل سکتا ہے موسم کا مزاج اتنا نہ اتراؤ
گھنے بادل کا موسم کی نمی کا کیا بھروسہ ہے

نہ جانے کب مفاد آئے نظر اور وہ بدل جائیں
نذیری بات سچ ہے شیخ جی کا کیا بھروسہ ہے

مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو

کوئی تبصرے نہیں: