قافیہ کے بارے میں ۔سلسلہ نمبر 2
پچھلے سبق میں ہم نے قافیہ کے بارے میں پڑھا اور یہ جانا کہ قافیہ مطلع کے دونوں مصرعوں میں ردیف سے پہلے آتا ہے. اور غزل کے ہر شعر کے دوسرے مصرع میں ردیف سے پہلے آتا ہے ۔
ہم نے حرف روی کے بارے میں پڑھا کہ قافیہ کا آخری حرف حرفِ روی کہلاتا ہے حرف روی کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ جس طرح حرف روی کا ہم مخرج اور ہم صوت ہونا ضروری ہے اسی طرح اس کا ہم شکل ہونا بھی ضروری ہے جیسے بارات، سوغات، رات . یا بازی اور غازی ۔ رات کا قافیہ بساط یا بازی کا قافیہ قاضی نہیں ہوسکتا. کیوں کہ دونوں میں حرفِ روی الگ الگ حروف ہیں ۔
اس بارے میں مکمل بحث اپنی جگہ پر آئے گی۔
قافیہ کا بامعنی ہونا بھی ضروری ہے. قافیہ مہمل نہیں ہوسکتا۔
قافیہ کا سارا دار و مدار ہی حرف روی پر ہوتا ہے. جس طرح حرف کے مقابلہ میں حرف کا ہونا ضروری ہے اسی طرح حرکت کے مقابلہ میں حرکت کا ہونا بھی ضروری ہے. ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک جگہ قافیہ اقارب استعمال کریں دوسری جگہ رب کردیں ۔
آئیے ہم ایک غزل میں قافیہ اور حرف روی کی تلاش کرکے اس سبق کی عملی مشق کرلیں پھر شاعری کی دوسری ضروری باتوں کی طرف بڑھیں.
عشق کو اپنے جہاں والے بھی تسلیم کریں
کیا محبت میں ہم اس قلب کو دو نیم کریں
کیا ضرورت ہے بھٹکنے کی زمانے بھر میں
عشق کے واسطے جب دل کو ہی اقلیم کریں
میں نے اک عمر کسی نام پہ قرباں کردی
آکے عشاق ملیں اور مری تعظیم کریں
دل دماغ اور نظر کرلیں کوئی سمجھوتہ
خود کو ہم عشق میں کتنی جگہ تقسیم کریں
ایک ارمان مچلتا ہے ابھی رہ رہ کر
آپ کے ساتھ کوئی شین الف میم کریں
ان کو الفاظ سمجھ ہی میں نہیں آتے ہیں
دل کے جذبات کی کس طرح سے تجسیم کریں
تو ہے دیوانہ تو صحرا کو نکل جانا تھا
کیا ترے واسطے قانون میں ترمیم کریں
دل بنا پیش امام اپنا نذیری صاحب
صاحبِ عقل , جنوں کی مرے تکریم کریں
اس غزل میں قافیہ اور حرف روی کی نشاندہی کے ساتھ داستان لفظ کے کم از کم 7 قافیہ لکھیں ۔
نوٹ ۔ جولوگ پرسنل پر سیکھنا چاہتے ہیں وہ واٹساپ کے بٹن پر کلک کرکے رابطہ کرسکتے ہیں ۔ نیز کسی قسم کے سوال و جواب کیلئے بھی واٹساپ یا پھر کمینٹ کا سہارا لیا جاسکتا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں