ردیف کا بیان
محترم قارئین! ہم نے قافیہ اور حرف روی کے بارے میں جان لیا اور ہمیں معلوم ہوگیا کہ شاعری کا سارا دور و مدار قافیہ پر ہے. یہی اہمیت ردیف کی بھی ہے. قافیہ کے بغیر بھی شاعری پھیکی اور بے رنگ ہوتی ہے شاعری میں وہی اہمیت ردیف کی بھی ہے. ردیف کی جدت اور تازگی بہتر سے بہتر مضامین کو شاعری میں باندھنے میں مدد دیتی ہے صرف ردیف کے بدلنے سے قافیہ کا مطلب اور حیثیت بدل جاتی ہے ،مفہوم اور خیالات میں لطف پیدا ہوجاتا ہے ردیف جتنی اچھوتی ہوتی ہے، شعر میں اتنا ہی اچھا مضمون پیدا ہوتا ہے. ترنم میں اتنی ہی جاذبیت پیدا ہوتی ہے. کلام میں اتنی ہی موسیقیت آجاتی ہے. ۔
ردیف کی تعرف :-
شعر کے آخر میں قافیے کے بعد جو حروف اور الفاظ آتے ہیں انھیں ردیف کہتے ہیں جیسے
گلوں میں رنگ لئے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
اس میں بہار اور کاروبار قافیہ ہے اور چلے ردیف ہے ۔کاروبار اور بہار کا لفظ بدلتا رہے گا. مگر چلے اپنی جگہ قائم رہے گا کیوں کہ چلے ردیف ہے اور ردیف کبھی نہیں بدلتی ۔ ردیف کے الفاظ و حروف کا من و عن آنا ضروری ہے یہ ظاہری طور پر کبھی نہیں بدل سکتے ۔ ہاں اگر معنوی طور پر بدل جائیں تو اسے عیب نہیں کہتے بلکہ اسے خوبی کہا جائے گا کیوں کہ اس سے شاعر کے کمالات کا پتہ چلتا ہے کہ اسے الفاظ و خیالات کو صحیح طور پر برتنے پر قدرت حاصل ہے۔ جیسے
پہلے بہت غرور تھا اپنی اڑان پر
محسوس کر رہے ہیں مگر اب تھکان پر
اس شعر میں ردیف کے حروف اپنی اصلی حالت پر باقی ہیں لیکن معنوی طور پر الگ الگ ہیں یہ حسن مانا جائے گا. عیب نہیں مانا جائے گا ۔
یاد رہے کہ ردیف کا معنوی اعتبار سے قافیہ میں پیوست ہونا ضروری ہے. ایسا نہ ہو کہ زبردستی قافیہ کے بعد ردیف مسلط کردی جائے بلکہ اس میں معنویت کی مکمل ہم آہنگی ہونی چاہیئے ۔ ورنہ شعر مہمل ہوجائے گا۔
ہم نے دو چیزوں کے بارے میں معلومات حاصل کی ۔
نمبر ایک ردیف نمبر دو قافیہ
میں خود جلوں جلے مرا گھر اس کو اس سے کیا
دشمن کے دل پہ کیسا اثر اس کو اس سے کیا
غزل کے اس مطلع میں اگر ہم بائیں سے دائیں دیکھیں تو" اس کو اس سے کیا " دونوں مصرعوں میں ٹکرا رہے ہیں یعنی یہ الفاظ مکرر استعمال ہو رہے ہیں تو یہ ردیف کہلائیں گے ۔
اگر مزید بائیں کو دیکھیں تو ہمارے پاس دو لفظ ہیں۔ پہلے مصرع میں گھر جب کہ دوسرے مصرع میں اثر اور دونوں لفظوں کا آخری حرف ر ہے یہی حرف روی کہلاتا ہے. اسی کو مدارِ قافیہ بھی کہتے ہیں ۔ اور اس سے پہلے والے حرف پر زبر ہے۔ گویا الفاظ یا حروف تو ظاہراً بدل گئے ہیں مگر ان کی آواز اور حرکت نہیں بدلی۔ دونوں کے اوپر زبر کی علامت ہی ہے۔ تو یہ قافیہ کا اصول ہوا۔ کہ ہم حرف تو بدل سکتے ہیں مگر اس حرف کی علامت کو نہیں بدل سکتے۔ اگر حرف کے اوپر زبر ہے تو زبر ، اگر زیر ہے تو زیر اور اگر پیش ہے تو پیش آئے گا. اگرچہ کچھ اساتذہ نے قافیہ کے تنگی کی صورت میں حرف روی سے پہلے والے حرف کی حرکت بدلنے کی اجازت دی ہے اور اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں ۔ مگر عیب تو عیب ہوتا ہے. چاہے کہیں بھی پایا جائے.
قافیہ اور ردیف کے بارے میں بہتر طور پر جاننے اور سمجھنے کے لئے سب سے بہتر اور سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اساتذہ کے کلام کا مطالعہ کیا جائے. انھیں پڑھا جائے اور سمجھا جائے اور اس پر عملی مشق کی جائے. سب کچھ دماغ میں بیٹھ جائے گا. اور سارا مسئلہ حل ہوجائے گا.
کرنے کے کام :۔
ترے جذبوں میں طغیانی بہت ہے
تجھے لٹنے میں آسانی بہت ہے
اس شعر کے حساب سے کم از کم دس قافیہ لکھئے. اور مشق کیجئے.
نوٹ ۔ جولوگ پرسنل پر سیکھنا چاہتے ہیں وہ واٹساپ کے بٹن پر کلک کرکے رابطہ کرسکتے ہیں ۔ نیز کسی قسم کے سوال و جواب کیلئے بھی واٹساپ یا پھر کمینٹ کا سہارا لیا جاسکتا ہے ۔
1 تبصرہ:
Nice job
ایک تبصرہ شائع کریں