غزل
درد وہ جھیلے کہ میرے ہوگئے ارمان چپ
عشق تونے کردیا اک بولتا انسان چپ
تیرے میرے ظرف میں بس صرف اتنا فرق ہے
شان تیری بولنا ہے اور میری شان چپ
چل رہی تھی اس کی مجلس شیخ جی بھی آگئے
شیخ کو دیکھا تو فورا ہوگیا شیطان چپ
آپ کہتے تھے کہ تم پر جان دے سکتے ہیں ہم
اک ذرا حاجت بتائی اور بھائی جان چپ
امن کی خاطر تری گالی بھی ہم سہتے گئے
ورنہ دریا میں کبھی رہتا نہیں طوفان چپ
ڈھیل جب تک دی گئی ہے بول تیرا وقت ہے
ورنہ اس کے بعد ہے فرعون چپ ہامان چپ
ان کی آنکھوں کی شرارت آپ نے دیکھی نہیں
آپ کو آئی نظر بس ان کی عالیشان چپ
جب وہ سوکھی روٹیوں کو رب کی نعمت کہہ گئے
میرے بچوں کی ادا پر ہوگیا مہمان چپ
آج ہم خود بے صدا ہیں دوسروں کا کیا قصور
ورنہ اپنے سامنے تھا روم چپ ایران چپ
وہ جو داناں ہیں خموشی ہے نذیری ان کے ساتھ
ورنہ کب ہوتا ہے دنیا میں کوئی نادان چپ
مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں