..............غزل..................
نہ ہوسکا یہ ستم باخدا نہیں کیا ہے
تمہاری یاد کو دل سے جدا نہیں کیا ہے
یہ آرزو ہے کہ اولاد احترام کرے
اور اپنے باپ کا حق بھی ادا نہیں کیا ہے
اب آکے تم مری دیوانگی کو دو اعزاز
اس ایک دن کیلئے میں نے کیا نہیں کیا ہے
جھکاؤں سر تو وہ دستار سر پہ باندھے گا
یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکا نہیں کیا ہے
کیا ہے تم نے مجھے پیار، میں نے مان لیا
مگر مری طرح بے انتہا نہیں کیا ہے
حقیقتوں کا تو چھوڑو کہ آج تک اس کو
خیال و خواب میں ہم نے خفا نہیں کیا ہے
یہ عشق طالبِ وحدت ہے اس لئے ہم نے
بس ایک عشق کیا دوسرا نہیں کیا ہے
امیرِ شہر کی یہ شرط، میں کروں آداب
قسم ہے بھوک سے میں مرگیا نہیں کیا ہے
مچاؤ شور تم استاد اپنے ہونے کا
ابھی لبوں کو نذیری نے وا نہیں کیا ہے
مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں