غزل
بہار و رنگ سے سوئے خزاں چلی آئی
میری حیات کہاں سے کہاں چلی آئی
جنابِ شیخ کا ممبر پہ ذکر جام و سبو
جو دل میں بات تھی نوکِ زباں چلی آئی
بھلاکے سارے گلے جب وہ میرے پاس آئے
لگا کہ دولتِ کون و مکاں چلی آئی
چلا ہے ذکر کہیں جب بھی بے وفائی کا
میری زباں پہ تیری داستاں چلی آئی
سنا تھا ہم نے نذیریؔ بہت عظیم ہیں آپ
یہ کیسے آپ کے لب پر فغاں چلی آئی
مسیح الدین نذیری
9321372295
1 تبصرہ:
بہت خوب سر
ایک تبصرہ شائع کریں