وہ جو دل میں قیام کرتے ہیں
وہی جینا حرام کرتے ہیں
بس مجھی کو نہیں اجازت دید
یوں تو وہ اذنِ عام کرتے ہیں
عمر سے مفلسی کو کیا لینا
ہے ضرورت تو کام کرتے ہیں
ہم امیروں کی ہم نشینی کو
دور سے ہی سلام کرتے ہیں
دیکھ محرومیت کے چہروں کو
کتنا کھل کر کلام کرتے ہیں
ہائے وہ بے خودی کہ منبر پر
شیخ جی جام جام کرتے ہیں
ہم نذیری بڑے بزرگوں کا
آج بھی احترام کرتے ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں