یوں بھی اصول اپنا نبھانا پڑا مجھے
سب جان کر فریب اٹھانا پڑا مجھے
دشمن کی صف میں اپنے رفیقوں لو دیکھ کر
واپس بغیر جنگ کے آنا پڑا مجھے
بچوں کی بھوک ذہن میں ہے عمر کیا کرے
جھکتی کمر پہ بوجھ اٹھانا پڑا مجھے
جب چل پڑے تو چھوڑ دیا ہاتھ کو میرے
مہنگا کسی کو راہ دکھانا پڑا مجھے
مشق ستم کسے وہ نذیری بنائیں گے
کوچے میں ان کے اس لئے جانا پڑا مجھے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں