7 جون، 2018

خواب جو آنکھوں میں رکھے تھے اندھورے چھوڑ کر


۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خواب جو آنکھوں میں رکھے تھے اندھورے چھوڑ کر
آگئے ہم قبر میں دنیا کے نخرے چھوڑ کر

کیسے تھک سکتا ہے وہ مزدور اپنے کام سے
بھوک سے آیا ہے جو بچے بلکتے چھوڑ کر

سختیاں جس گام آئیں آزمائش تھی جہاں 
لوٹ آئے ہیں مرے اپنے وہیں سے چھوڑ کر

شہسوارانِ سیاست بھائی چارہ ملک کا
لوٹتے رہتے ہیں نفرت کے شگوفے چھوڑ کر

جاکے بس جاتے ہیں غربت کے سبب پردیس میں
باپ ماں بیوی بہن بھائی کے رشتے چھوڑ کر

فائدہ اپنا نظر آیا تو آئے کس طرح
شیخ جی اپنی شریعت کے تقاضے چھوڑ کر

ان کی مرضی تھی تو دل پر جبر کر کے آگئے
ہم نذیری شہر ان کا ہنستے ہنستے چھوڑ کر

   مسیح الدین نذیری

کوئی تبصرے نہیں: