13 نومبر، 2020

میں سوچتا ہوں اکھڑتی سانسوں کا کیا بنے گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


میں سوچتا ہوں اکھڑتی سانسوں کا کیا بنے گا

وہی نہ آئے تو ان چراغوں کا کیا بنے گا


کبھی لکھی جائیگی اگر داستانِ الفت

تمہاری قسموں تمہارے وعدوں کا کیا بنے گا


ابھی بہت دیر کب ہوئی ہے ابھی تو جاگو

وگرنہ سوچو تمہارے بچوں کا کیا بنے گا


نہیں ہے کافی تمہارا احساس بھیج دینا

تمہیں نہ ہوگے تو صرف جذبوں کا کیا بنے گا


ہمارا کیا ہم فقیر ہیں عمر کاٹ لیں گے

پڑا اگر وقت شاہزادوں کا کیا بنے گا


عمل کی راہوں میں دو قدم بھی نہیں چلے ہو

اے بدنصیبو طویل رستوں کا کیا بنے گا


اٹھو تمہیں دار اور رسن پھر بلا رہے ہیں

نہیں اٹھے تو تمہاری نسلوں کا کیا بنے گا 


چمن دیا جائیگا خزاؤں کی دسترس میں

ذرا بتاؤ! چمن کے پھولوں کا کیا بنے گا


عذاب بن جائیں گی یہی ظالموں کے حق میں

نہ پوچھئے کہ ہماری آہوں کا کیا بنے گا


وطن پرستی کے خول میں ہیں وطن کے دشمن

وطن کی ان خوشنما بہاروں کا کیا بنے گا


اگر نہیں شوقِ سرفروشی تو پھر نذیری

ترے وظیفوں تری دعاؤں کا کیا بنے گا


مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو