۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارے عشق میں یہ فائدہ میسر ہے
کہ مجھ کو زخم مسلسل ہرا میسر ہے
گئے دنوں کی اسے یاد کیسے آئے گی
کہ آپ جیسا جسے دوسرا میسر ہے
مرا حبیب کسی اور کو نصیب ہوا
مجھے حبیب کسی اور میسر ہے
اسے کوئی بھی خسارا رلا نہیں سکتا
وہ شخص جس کو سہارا ترا میسر ہے
وہ جس کے ڈر سے میں چھوڑ آیا شہر کو اپنے
اسی کو میرا مکمل پتہ میسر ہے
بھلا وہ اپنے مقدر پہ ناز کیوں نہ کرے
وہ خوش نصیب جسے آپ سا میسر ہے
کسی بھی حکمِ شریعت میں اپنی تاویلیں
جنابِ شیخ کو یہ راستہ میسر ہے
مجھے نکال کے اپنی حیات سے آخر
کبھی تو سوچ تجھے آج کیا میسر ہے
تمہارے در سے نکالے گئے کو دنیا میں
یہی بہت ہے کہ آب و ہوا میسر ہے
ابھی ہے باپ نذیری مرا بقیدِ حیات
سحر کے وقت کی مجھ کو دعا میسر ہے
مسیح الدین نذیری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں