ارتضی نشاط کچھ یادیں
خوش اخلاقی میں اگر اخلاص شامل نہ ہو تو اسے منافقت کہا جاتا ہے لیکن اگر خوش اخلاقی کے ساتھ ساتھ خلوص نیت بھی شامل ہو تو اس سے حضرت ارتضیٰ نشاط صاحب ھیولی ابھر کر سامنے آتا ہے 22 اگست 2023 کا دن اُردو ادب کے متوالوں کے لیے اچھا دن نھیں تھا جب پیر میخانہ کے ہی اٹھ جانے کے کی خبر آئی اور اس خبر نے ہر اس آدمی کو سو گوار کر دیا جس کا اردو زبان سے کسی بھی طرح رشتہ رہا ہو۔
ارتضیٰ نشاط صاحب کے انتقال اردو ادب کے ایک عہد کا خاتمہ ہے، ان کے انتقال کی وجہ سے جوخلا پیدا ہوا ہے وہ کہیں سے بھی پر ہوتا نھیں نظر آرہا ہے اللہ ان کی مغفرت فرمائے کہ انھوں نے اُردو کی ترویج اور ترقی کو اپنا مشن بنا رکھا تھا ارتضیٰ نشاط صاحب کے فن اور ان کی شخصیت پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے خاص طور پر ان کی شخصیت کے اس پہلو پر روشنی ڈالنے کی شدید ضرورت ہے کہ انھوں نے کبھی بھی حالات اور مفاد کے پیش نظر اردو کی عظمت سے سمجھوتہ نھیں کیا کبھی بھی ذاتی فائدے کے لئے انھوں نے اپنا معیار نہ گرنے دیا خسارہ برداشت کر لیا مگر مشن سے نہ ہٹے جیسے ان کیا یہ شعر ؎
شاعری ہے کوئی نوشاد کا میوزک تو نھیں
شعر اچھا ہے تو پھر گا کے سناتا کیا ہے
اس شعر کی وجہ سے مترنم بلکہ گویوں کا گروپ ان کے خلاف ہو گیا اور ان کی مخالفت کی گئی مگر مرحوم نے اسے اپنا مشن بنا لیا اور ہر پورگرام میں خاص طور پر اسے ضرور پڑھتے، اگر کسی وجہ سے نہیں پڑھتے تو سامعین کی درخواست آجاتی۔
ارتضیٰ نشاط صاحب ماحول میں رچی بسی برائیوں،اور کج رویوں پر بڑے باریک انداز میں شعری طنز کرتے اور ان کی اصلاح کی کوشش کرتے جیسا کی آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ مارکیٹ چلانے اور سامعین کے جذباتی استحصال کے لیے ماں کے موضوع پر خوب شاعری کی جاتی ہے بلکہ کچھ لوگوں نے تو اس کو اپنا مونوگرام بنا لیا ہے مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ انھوں نے سب کے ساتھ باپ کے مقا م و مرتبہ کا بھی استحصال کیا ہے، یہ لوگ ماں سے محبت کرنے والے نہیں بلکہ ماں کو اپنے کاروبار کے لئے استعمال کرنے والے ہیں اور اس موضوع کو حضرت مرحوم نے شعر میں طنز کیا ہے ؎
کہ جیسے صرف ان کے پاس ماں ہے
ادب میں ایسے بچکنڈے ابھی ہیں
حضرت مرحوم ارتضیٰ نشاط صاحب کی خوبیوں میں ایک سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ مرحوم بڑے شفیق اور بہت حوصلہ افزائی کرنے والے انسان تھے خود مجھے لگ بھگ تیس سال شاعری میں ہونے کو ہیں، ان تیس سالوں میں بڑے بڑے اساتذہ سے ملنا ہوا ایک سے ایک عاشق اردو سے سامنا ہوا لیکن خدا گواہ ارتضیٰ نشاط صاحب سے ملنے کے بعد استاد شعرا کے بارے میں سارا نظریہ بدل گیا اور میں بڑے فخر سے کہا کرتا ہوں کہ چھوٹوں کو آگے بڑھانے کا شدید جذبہ میں نے جو ارتضیٰ نشاط صاحب میں دیکھا ہے کہیں وہ کہیں اور نظر نہیں آیا۔
مرحوم کی شاعری پر مذہبیت غالب تھی، مثبت سوچ کے حامل انسان تھے کبھی بھی انھوں نے منفی اور غلط رنگ کو شاعری پر حاوی نھیں ہونے دیا، ایک بار میں مرحوم کو اپنی غزل سنارہا تھا جب یہ شعر سنایا کہ ؎
انھیں کا نام زباں پر بوقتِ نزع رہا
ہم امتحانِ محبت میں پاس ہوگئے ہیں
بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا ، لاالہ الا اللہ و محمد الرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے ان کی خطاؤں سے درگزر کرے ان کی ستیاب کو حسنات سے بدل دے انھیں جنت الفردوس جگہ عنایت فرمائے۔ آمین
مسیح الدین نذیری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں