10 ستمبر، 2023

ہم کو گھٹی میں ملا کرکے وفا دی گئی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  غزل.  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہم کو گھٹی میں ملا کرکے وفا دی گئی ہے

خون میں جنسِ گراں قدر ملادی گئی ہے


آج بھی ہے مرے اشعار میں جلوہ اس کا

ایک لڑکی جو بہت پہلے بھلادی گئی ہے


جرم بس جرمِ محبت تھا مگر ہجر سزا 

جرم ایسا تو نہ تھا جیسی سزا دی گئی ہے


بہہ گئے غم ترے جب پھوٹ کے میں رویا تھا 

قیمتی چیز تھی پانی میں بہا دی گئی ہے


اپنی شادی پہ وہ خوش کیسے نظر آئے گی

اس پہ مرضی تو کسی اور کی لادی گئی ہے


دے کے غم ہجر کا شاید انھیں آیا نہ سکوں

اب ستم یہ ہے کہ جینے کی دعا دی گئی ہے


شہرِ بے حس میں اگر ہوگئے مصلوب تو کیا

خوش ہیں ہم عشق کی اک جوت جگادی گئی ہے


اس کا شجرہ تو شریفوں سے نہیں ملتا ہے

تیرے ہاتھوں میں جو تہذیب تھمادی گئی ہے


میرے اعصاب پہ رہتا ہے وہ اس طرح سوار

کال ہر بار  اسے غیر ارادی گئی ہے


پھر نذیری وہی بے کیف رتیں، موسمِ ہجر 

زندگی کیسی طلب کی گئی کیا دی گئی ہے


میم نذیری

کوئی تبصرے نہیں: