۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے اتنا بھی مرا مان نہیں رہنے دیا
لوٹ کر آنے کا امکان نہیں رہنے دیا
زندگی کا کوئی سامان نہیں رہنے دیا
یوں گیا مجھ میں مری جان نہیں رہنے دیا
تونے چھوڑا مجھے میں شہر ترا چھوڑ آیا
خود پہ تیرا کوئی احسان نہیں رہنے دیا
اس سے بڑھ کر تجھے ہم اور سزا کیا دیتے
اپنے دل کا تجھے سلطان نہیں رہنے دیا
میرے تاریک دنوں میں کوئی ہاتھ آگے بڑھا
اور مجھے رنج سے ہلکان نہیں رہنے دیا
دل کی مسند کسی حقدار کو سونپی ہم نے
دل کا گوشہ کبھی سنسان نہیں رہنے دیا
چھاگئی آج ہر اک شخص پہ دنیا کی ہوس
جس نے انسان کو انسان نہیں رہنے دیا
ہر کوئی پڑھ لے نذیری ہمیں ، سمجھے ہم کو
خود کو اتنا کبھی آسان نہیں رہنے دیا
مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں