۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل میں ذکر اسی میرے خوش خرام کا ہے
وہ اشتیاق تو دیکھو جو خاص و عام کا ہے
تمہاری مجھ سے کنارہ کشی نہیں ممکن
تمہارے باغ میں اک پھول میرے نام کا ہے
کبھی کریں گے زمان و مکان کی باتیں
سنو یہ وقت محبت کے اہتمام کا ہے
تہمارا بخشا ہوا دکھ نکھارتا ہے اسے
زمانے بھر میں جو چرچا مرے کلام کا ہے
حسین باتوں سے منزل ملا نہیں کرتی
زمانہ دوست مرے! عین میم لام کا ہے
میں کہہ رہا ہوں کہ تم زندگی ہو دھڑکن ہو
وہ کہہ رہا ہے تعلق دعا سلام کا ہے
تجھے نہ آیا ابھی سادگی سے ہاں کہنا
تری طرح سے ترا عشق تام جھام کا ہے
میں ٹوٹ جاؤں گا جھک جاؤں گا ترے آگے
اسیر اب بھی تو اپنے خیالِ خام کا ہے
میں تم سے عشق کروں اور اسے چھپاکے رکھوں
مزاج اپنا تو بچپن سے دھوم دھام کا ہے
یہ قبر دیکھ لو اس کے مکیں نذیری ہیں
ٹھکانہ آخری یہ عشق کے امام کا ہے
مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں