21 دسمبر، 2018

وہ سہ نہ سکا رنج و الم توڑ رہا ہے


وہ سہ نہ سکا رنج و الم توڑ رہا ہے
بیمار ترے عشق کا دم توڑ رہا ہے

عاجز ہے کہ تمثیل بنا ہی نہیں سکتا
اس واسطے فنکار قلم توڑ رہا ہے

اک وہ ہیں کہ وعدے سے مکر جاتے ہیں ہربار
اک دل ہے مرا اب بھی قسم توڑ رہا ہے

اس بات پہ کچھ کیجئے ارشادِ گرامی
دل میرا کوئی شیخ حرم توڑ رہا ہے

یہ عشق ہے لازم ہے یہاں ضبط نذیری
آنسو تری چاہت کا بھرم توڑ رہا ہے

کوئی تبصرے نہیں: