#نذیریات5
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک عالم تھا مرے گرد تماشائی کا
ہاتھ کوئی نہ بڑھا پھر بھی شناسائی کا
جب وہ مفلس تھا تو کم عقل لقب تھا اس کا
شہر میں شور ہے جس شخص کی دانائی کا
ہیں مرے زخم اسی شخص کی بخشش جس کو
تاج بخشا گیا اس بار مسیحائی کا
غیر ممکن ہے احاطہ کوئی اس کا کردے
تم کو اندازہ نہیں عشق کی گہرائی کا
آج ہر شخص بناوٹ میں یقیں رکھتا ہے
کوئی طالب نہیں اس دور میں سچائی کا
امن کے نام پہ تم ہم کو کہاں لائے ہو
شہر میں خوف ہر اک سمت ہے بلوائی کا
آپ کو خوفِ خدا ہے کہ نہیں ہے صاحب
شیخ جی آپ بھی پربت نہ کریں رائی کا
اب ہمیں درد کی لذت کا ہوا اندازہ
سسکیاں ہم کو مزہ دیتی ہیں شہنائی کا
عشق کا ناز نذیری وہ اٹھائے کیسے
جس نے دیکھا ہی نہیں دکھ شبِ تنہائی کا
مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں