22 نومبر، 2020

دھڑکن تیرا رک جانا مجبوری ہے

 ..........غزل......... 

دھڑکن تیرا رک جانا  مجبوری ہے 

اور سانسوں کا لہرانا مجبوری ہے

بن سمجھے سب کو سمجھانا مجبوری ہے 

دل تجھ کو امید دلانا مجبوری ہے

سچ ہے سانسیں آخری پائیدان پہ ہیں 

ایسے میں بھی آس جگانا مجبوری ہے

رخصت ہونے والا کہہ کر لوٹ گیا

رات ہوئی اب گھر جانا مجبوری ہے

اپنا گذرتی ریل سے ہے ایسا رشتہ

ہاتھ ہوا میں لہرانا مجبوری ہے

آنگن کی وسعت بھی تنگی ہو جیسے

آنگن میں دیوار اٹھانا مجبوری ہے

عشق ہماری گھٹی میں ہے پھر ہم کو 

غزلیں سننا غزلیں گانا مجبوری ہے

اتنی دولت اندر کیسے رکھ پاتے ہم 

آنکھوں کا موتی برسانا مجبوری ہے

اس تک اپنی بات نذیری پہونچانے کو

ہر محفل میں شعر سنانا مجبوری ہے


مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو