.......... غزل...........
میں ساری دنیا کی قدر دانی کا کیا کروں گا
بچھڑ کے تم سے میں زندگانی کا کیا کروں گا
مجھے اگر تو نہیں میسر تو کیا ملا پھر
میں سوچتا ہوں کہ اس جوانی کا کیا کروں گا
وہ جس میں کردار ہو تمہارا نہ تذکرہ ہو
بھلا میں ایسی کسی کہانی کا کیا کروں گا
مرے لئے بس تمہاری قربت ہی زندگی ہے
میں اس زمانے کی مہربانی کا کیا کروں گا
فراق ہو یا وصال ہو کھل کے ہو وگرنہ
میں لے کے اس ربطِ درمیانی کا کیا کروں گا
مجھے فقط چاہیئے ترے عشق کا حوالہ
میں ساری دنیا کی حکمرانی کا کیا کروں گا
وہی مری مہربانیوں کو بتا رہا ہے
کہا تھا جس نے کہ مہربانی کا کیا کروں گا
تمہاری قیمت پہ مل رہی ہو جو شادمانی
تو میں بھلا ایسی شادمانی کا کیا کروں گا
وہ لے تو جائیگا اپنی بخشی ہوئی انگوٹھی
جو دل پہ ہے نقش اس نشانی کا کیا کروں گا
مجھے وہی ایک شخص مطلوب تھا نذیری
میں اِس فلانے کا اُس فلانی کا کیا کروں گا
مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو
1 تبصرہ:
واااااہ واااااہ واااااہ واااااہ واااااہ بہترین غزل بہت عمدہ اشعار بہت خوب کیا کہنے
ایک تبصرہ شائع کریں