۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے جانے والے تمہارے جانے کے بعد آئی ہوئی اداسی
سیاہ لگنے لگی یہ دنیا کچھ ایسی رچ بس گئی اداسی
شریک ہونا کسی کی خوشیوں میں ہے تقاضا معاشرت کا
کروں میں کیسے نباہ تجھ سے ، بتا مری سر چڑھی اداسی
نکل کے گھر سے سڑک پہ آئے اِدھر ادھر وقت کچھ گزارا
کئی ملے جن سے بات بھی کی ، مگر ہے دل پر وہی اداسی
جو پوچھ لے کوئی حال مجھ سے ، تو بول پڑتاہوں ٹھیک ہے سب
مگر وہ لہجے کی کپکپاہٹ، مگر وہ آواز کی اداسی
مجھے اگر ہے طلب تمہادی تو اس میں آخر غلط بھی کیا ہے
تمہیں بتاؤ اداس آدم کی دور کیسے ہوئی اداسی
اداس لوگوں میں آکے بیٹھو ، اداس لوگوں کے حال جانو
کھلے گا پھر رازِ عشق تم پر کہ کیسے پھولی پھلی اداسی
دلاسہ خود کو دیا ہے ہم نے لپٹ کے ہم خود سے خوب روئے
یقیں جب آیا کے جاچکے ہو تو ہم نے بھی اوڑھ لی اداسی
وقار ہم سے بڑھا ہے اس کا ، ہمیں نے اس کا بھرم رکھا ہے
یقین مانو کہ ہم سے ، پہلے عزیز سب کو نہ تھی اداسی
یہی شب و روز ہیں ہمارے، یہی ہے اب زندگی نذیری
فسردگی، رنج و غم ، اذیت ، تڑپ ، کسک ، بے بسی اداسی
مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں