۔۔۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال جو آج میرے جی کا ہے
روگ بخشا ہوا کسی کا ہے
ایک بھرپور سی اداسی میں
ذکر شام و سحر اسی کا ہے
حسن ہو اور کسی کو عشق نہ ہو
مسئلہ سارا آگ و گھی کا ہے
لاش اپنی اٹھاکے لائے ہیں
حال کچھ ایسا واپسی کا ہے
ان کے جانے کے بعد سے جیسے
زندگی تیرا رنگ پھیکا ہے
آنکھ رخسار و لب ہیں زلفیں ہی
ایک خاکہ سا اجنبی کا ہے
بہتے رہنا ہے یونہی دونوں کو
کام یہ آنکھ اور ندی کا ہے
ہم جو پھرتے ہیں بن کے شاعر اب
یہ کرم بھی تو آپ ہی کا ہے
غم سمجھتا ہے اپنے جیسوں کا
اتنا رتبہ تو آدمی کا ہے
دیکھ کر جی پڑے نذیری بھی
یار کیا رنگ زندگی کا ہے
مسیح الدین نذیری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں