دور -جدید کا کہنہ مشق شاعر .خورشید عالم صابری
از - تابش رامپوری ممبرا .ممبئی
کہنہ مشقی اور ریاضت شعری کے ساتھ ساتھ عصری آگہی بھی اگر شاعر کی فکرمیں شامل ہوجائے تو بڑی جاذبیت کی بات بن جاتی ہے ,
شاعر خورشید عالم صابری اس رمز سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں .اس لئے ان کے اشعار میں انکشاف ذات کے ساتھ ساتھ حیات و کائنات کے مسائل بھی ابھر کر سامنے آتے ہیں .ان کا ایک بہت ہی خوبصورت شعر ااس تناظر میں ملاحظہ فرمالیں .
یہ درد مرے جسم کا حصہ بھی نہیں ہے
کمبخت مگر چھوڑ کے جاتا بھی نہیں ہے
انھوں نے روایتی انداز میں صرف عشقیہ جذبات و احساسات کی ترجمانی نہیں کی .بلکہ گرد و پیش مییں رونما ہونے والے حادثات و واقعات کو بھی موضوع کلام بنایا ہے .اور وہ بھی اس فن کارانہ صلاحیت کے ساتھ کہ ان کی غزلیں فلسفئہ عشق ,حکایات بے خودی دونوں کے معیار پر بخوبی اتر تی ہیں .
شعر ملاحظہ کر لیں .
انہیں خودی کے مسائل پہ بات کرنے دو
میں اس کے بعد بتائوں گا بے خودی کیا ہے
ممبئی شہر ہمیشہ شعرو ادب کا گہوارہ رہا ہے .ادبی حیثیت سے بھی اور فلمی حیثیت سے بھی .اور یہ بھی مسلم حقیقت ہے ادو زبان کے فروغ میں فلموں کا بہت بڑا کردار رہا ہے ,جس کو فراموش نہیں کیا جا سکتا .اگرچہ کچھ مصلحت کے تحت اردو کو ہندی کا نام دے دیا گیا .
آزادی کے پہلے اور آزادی کے بعد بھی اردو کے عظیم شعرائے کرام اور مصنفین حضرات نے اس شہر کو اپنا مسکن بنایا .
مثلا" شکیل بدایونی ,ساحر لدھیانوی ,جاں نثار اختر ,ظ .انصاری ,مجروح سلظانپوری ,علی سردار جعفری .اور عصمت چغتائی وغیرہ . یہیں تمام عمر گزارنے کے بعد سپرد خاک ہوئے .اور آج بھی نہ جانے کتنے شعرائے کرام اور مصنفین حضرات اس شہر کو اپنا مسکن بنائے ہوئے ہیں.
انہیں میں سے ایک معتبر نام جناب خورشید عالم صابری کا بھی ہے .جو در اصل راجستھان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کی ساخت پرداخت اور تربیت ممبئی مایا نگری میں ہی ہوئی .اس لئے انہیں ممبئی سے منسوب کرنا زیادہ مناسب ہوگا .
اچھے اشعار کہنے کے لئے چار باتوں کی ضرورت ہوتی ہے .یعنی ندرت خیال . اور خیالات کو ادا کرنے کا بہترین اسلوب .زبان کی ایسی توانائی اور اس پر اتنا عبور حاصل ہو کہ خیالات کو ادا کرنے میں کسی قسم کی دقت نہ آئے .اور حقیقت نگاری یعنی شاعر اپنے تجربات اور مشاہدات کو اپنے شعری پیکر میں ڈھال کر اس کو خوشنما اور دلکش. بنادے .ورنہ خیالی باتوں سے کلام کی تاثیر زائل ہو جاتی ہے .
ان کے پختہ شاعر ہونے کی دلیل یہ شعر ہے .سماعت فرمائیں
مرا مزاق سخن اس لئے بھی عام نہیں
کہ فلسفوں کو سمجھنا بھی سب کا کام نہیں
پرکھ رہا ہوں میں ذھن اوں کو اک کسوٹی پر
جو میرا شعر سمجھ لے وہ شخص عام نہیں
غزل سنائیئے مفہوم ہم سمجھ لین گے
کہ ہر مقام. تو تمہید کا مقام نہیں .
نتیجہ فکر .خاکسار تابش رامپوری ممبرا .ممبئی