8 جنوری، 2024

دور -جدید کا کہنہ مشق شاعر .خورشید عالم صابری

 دور -جدید کا کہنہ مشق شاعر .خورشید عالم صابری 

از - تابش رامپوری ممبرا .ممبئی

کہنہ مشقی اور ریاضت شعری کے ساتھ ساتھ عصری آگہی بھی اگر شاعر کی فکرمیں شامل ہوجائے تو بڑی جاذبیت کی بات بن جاتی ہے ,


شاعر خورشید عالم صابری اس رمز سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں .اس لئے ان کے اشعار میں انکشاف ذات کے ساتھ ساتھ حیات و کائنات کے مسائل بھی ابھر کر سامنے آتے ہیں .ان کا ایک بہت ہی خوبصورت شعر ااس تناظر میں ملاحظہ فرمالیں .


یہ درد مرے جسم کا حصہ بھی نہیں ہے 

کمبخت مگر چھوڑ کے جاتا بھی نہیں ہے


انھوں نے روایتی انداز میں صرف عشقیہ جذبات و احساسات کی ترجمانی نہیں کی .بلکہ گرد و پیش مییں رونما ہونے والے حادثات و واقعات کو بھی موضوع کلام بنایا ہے .اور وہ بھی اس فن کارانہ صلاحیت کے ساتھ کہ ان کی غزلیں فلسفئہ عشق ,حکایات بے خودی دونوں کے معیار پر بخوبی اتر تی ہیں .


شعر ملاحظہ کر لیں .


انہیں خودی کے  مسائل  پہ  بات  کرنے  دو 

میں اس کے بعد بتائوں  گا بے خودی کیا ہے


ممبئی شہر ہمیشہ شعرو ادب کا گہوارہ رہا ہے .ادبی حیثیت سے بھی اور فلمی حیثیت سے بھی .اور یہ بھی مسلم حقیقت ہے ادو زبان کے فروغ میں فلموں کا بہت بڑا کردار رہا ہے ,جس کو فراموش نہیں کیا جا سکتا .اگرچہ کچھ مصلحت کے تحت اردو کو ہندی کا نام دے دیا گیا .


آزادی کے پہلے اور آزادی کے بعد بھی اردو کے عظیم شعرائے کرام اور مصنفین حضرات نے اس شہر کو اپنا مسکن بنایا .


مثلا" شکیل بدایونی ,ساحر لدھیانوی ,جاں نثار اختر ,ظ .انصاری ,مجروح سلظانپوری ,علی سردار جعفری .اور عصمت چغتائی  وغیرہ . یہیں تمام عمر گزارنے کے بعد سپرد خاک ہوئے .اور آج بھی نہ جانے کتنے شعرائے کرام  اور مصنفین حضرات اس شہر کو اپنا مسکن بنائے ہوئے ہیں.

انہیں میں سے ایک معتبر نام جناب خورشید عالم صابری  کا بھی ہے .جو در اصل راجستھان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کی ساخت پرداخت اور تربیت ممبئی  مایا نگری میں ہی ہوئی .اس لئے انہیں ممبئی  سے منسوب کرنا زیادہ مناسب ہوگا .


اچھے اشعار کہنے کے لئے چار باتوں کی ضرورت ہوتی ہے .یعنی ندرت خیال . اور خیالات کو ادا کرنے کا بہترین اسلوب .زبان کی ایسی توانائی  اور اس پر اتنا عبور حاصل ہو کہ خیالات کو ادا کرنے میں کسی قسم کی دقت نہ آئے .اور حقیقت  نگاری یعنی شاعر اپنے تجربات اور مشاہدات کو اپنے شعری پیکر میں ڈھال کر اس کو خوشنما اور دلکش. بنادے .ورنہ خیالی باتوں سے کلام کی تاثیر زائل ہو جاتی ہے .


ان کے پختہ شاعر ہونے کی دلیل یہ شعر ہے .سماعت فرمائیں 


مرا مزاق سخن اس لئے بھی عام نہیں 

کہ فلسفوں کو سمجھنا بھی سب کا کام نہیں 


پرکھ رہا ہوں میں ذھن اوں کو اک کسوٹی پر 

جو میرا شعر سمجھ لے وہ شخص عام نہیں 


غزل سنائیئے مفہوم ہم سمجھ لین گے 

کہ ہر مقام.  تو  تمہید  کا  مقام  نہیں .


نتیجہ  فکر .خاکسار تابش رامپوری ممبرا .ممبئی

7 جنوری، 2024

دعا سے فرض میں خوشبو ہے واجبات میں رنگ - ذوالفقار صعیدی

 غزل


دعا سے فرض میں خوشبو ہے واجبات میں رنگ

دعا سے آتا ہے بندے تمہاری ذات میں رنگ


یہ بات سچ ہے دعا رنگ و بو سے عاری ہے

مگر  دعا  سے  نکھرتا ہے کائنات میں رنگ


دعا میں کرتے ہیں شامل جو دوسروں کو سدا

انہیں کے در پہ سدا  آئے انبساط میں رنگ


 ہو  ابتدا بھی دعا سے  ہی ختم ہو تو  دعا

نکھر کے آئیگا بے شک اسی سے بات میں رنگ


دعا کرو  کہ  دعا ہی  ملے  بزرگوں سے

دعا ملی  تو  اتر  آئے  گا  حیات میں رنگ


دعا کرو  تو  اسی  سے  کرو  جو  خالق ہے

اسی کے فضل و کرم سے ہے کائنات میں رنگ


ہوا   ہو   ختم   اگر   حوصلہ   دعا   کیجئے

صعیدی  آئے  دعا  سے  تخیلات  میں  رنگ


ذوالفقار صعیدی

کبھی جو دیکھے مصور مرے غزال کا رنگ - میم_نذیری پورہ معروف مئو

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کبھی جو دیکھے مصور مرے غزال کا رنگ

پکار اٹھے گا بے ساختہ "کمال کا رنگ"


دیارِ عشق کے باسی ہو اس کا دعوی ہے

تو پھر یہ چہرے پہ چھایا ہے کیوں ملال کا رنگ


شجر کی ڈال پہ جھولا تھا اس کا بچپن میں

ہرا ہے آج بھی نسبت سے اس کی ڈال کا رنگ


ہمارا ہجر ہمیں دور کر نہیں سکتا

میں جان جاتا ہوں موسم سے تیری شال کا رنگ


سجائے بیٹھے ہو تم روشنی کی بزم مگر 

بدل نہ دے کہیں موسم کو اس کے بال کا رنگ 


جب ان کے چہرے کو دیکھا تو سارا راز کھلا

وگرنہ میں نہ سمجھتا کبھی گلال کا رنگ


یہ عشق ہے یہاں رنگوں کا اعتبار نہیں 

یقیں نہ آئے تو خود دیکھ لو بلال کا رنگ 


تم ان کے دلنشیں لہجے میں آ نہ جانا کبھی 

ڈراؤنا نہیں ہوتا کسی بھی جال کا رنگ


اگر حصار میں تم اس کے ایک بار آئے 

اتار دے گی محبت تمہاری کھال کا رنگ


تمہارے رنگ کو سب لوگ جان جاتے ہیں 

اتار دیتا ہوں کاغذ پہ جب خیال کا رنگ 


ہمارا حال نذیری نہ پوچھئے ہم سے 

ہمارے چہرے پہ لکھا ہے ماہ و سال کا رنگ 


میم_نذیری پورہ معروف مئو

23 دسمبر، 2023

حال جو آج میرے جی کا ہے

 ۔۔۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حال جو آج میرے جی کا ہے 

روگ بخشا ہوا کسی کا ہے


ایک بھرپور سی اداسی میں

ذکر شام و سحر اسی کا ہے


حسن ہو اور کسی کو عشق نہ ہو

مسئلہ سارا آگ و گھی کا ہے


لاش اپنی اٹھاکے لائے ہیں

حال کچھ ایسا واپسی کا ہے


ان کے جانے کے بعد سے جیسے

زندگی تیرا رنگ پھیکا ہے


آنکھ رخسار و لب ہیں زلفیں ہی 

ایک خاکہ سا اجنبی کا ہے


بہتے رہنا ہے یونہی دونوں کو

کام یہ آنکھ اور ندی کا ہے


ہم جو پھرتے ہیں بن کے شاعر اب

یہ کرم بھی تو آپ ہی کا ہے


غم سمجھتا ہے اپنے جیسوں کا

اتنا رتبہ تو آدمی کا ہے


دیکھ کر جی پڑے  نذیری بھی 

یار کیا رنگ زندگی کا ہے 


مسیح الدین نذیری

13 اکتوبر، 2023

زور جتنا بھی اے دریاتیری طغیانی میں ہے

.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زور جتنا بھی اے دریاتیری طغیانی میں ہے
سرپھرا میں ہوں مرا بھی نام لاثانی میں ہے

جس کو ہر ہر موڑ پر بخشی ہے میں نے زندگی
اب کھلا مجھ پر وہ میرے دشمنِ جانی میں ہے

ہر ضروری چیز مہنگی ہوگئی ہے آج کل
خون بس انسانیت کا آج ارزانی میں ہے

سچ نہ تم کہتے نہ یوں آتے کبھی زیرِ عتاب
جان لیتے کیا مزاجِ ظلِ سبحانی میں ہے

کس کو فکرِ آخرت ہے کس کو ملت کا خیال
جو جہاں پر ہے مسلسل اپنی من مانی میں ہے

وہ اذانیں اور تھیں جو چھیڑتی تھیں سازِ دل
اب کہاں جادو مسلماں کی مسلمانی میں ہے

دشمنوں کی فوج آ پہونچی فصیل شہر تک
بادشاہِ وقت کا لشکر دعا خوانی میں ہے

نام میرا یوں سرِ محفل پکارا آپ نے
میری قسمت پر زمانہ اب بھی حیرانی میں ہے

عیش کوشی میں شہنشاہوں نے کاٹی زندگی
نسل ان کی آج تک یارو پریشانی میں ہے

 رونے والوں کو ہنسی مرحم سسکتے زخم کو
اور کیا رکھا نذیری عالم فانی میں ہے 

                مسیح الدین نذیری
                        9321372295