شاعری سیکھیں سلسلہ
قافیہ کا بیان
قافیہ کا دخل شاعری میں سب سے زیادہ ہے ۔ اگر شاعری میں سے قافیہ نکال دیا جائے تو پھر شاعری کے اندر کچھ بھی نہیں بچتا ، قافیہ اور ردیف ہی شاعری کی جان ہیں. آپ نے دیکھا ہوگا کہ فیس بک وغیرہ پر بہت سے لوگ شاعری کے نام پر بہت کچھ پوسٹ کرتے ہیں ان میں فنی لوازمات کہیں بھی نہیں پائے جاتے مگر قافیہ کا دھیان ضرور رکھا جاتا ہے. قافیہ ہی شاعری کا اصل حسن ہے، شاعری کا سارا حسن اور کشش قافیہ کی ہی دین ہے. قافیہ ہی شاعری کی خوبصورتی ہے. یہاں تک کہ جن لوگوں کی طبیعت شاعری کے لئے موزوں نہیں ہوتی وہ لوگ بھی قافیہ کی تمیز رکھتے ہیں ۔
قافیہ کے معنی لغت میں ۔ پیچھے آنے والا
اصطلاح میں قافیہ ان حروف و حرکات کا نام ہے جو مطلع کے ہر مصرع میں اور ہر شعر کے دوسرے مصرع کے آخر میں آئے ۔ قافیہ کا استعمال ردیف سے پہلے ہوتا ہے. لیکن کچھ کلام غیر مردف بھی ہوتے ہیں یعنی ان میں الگ سے ردیف کا استعمال نہیں ہوتا ۔
آئیے مثال میں قافیہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
غالب کے اس کلام میں دم اور کم قافیہ ہیں اور نکلے ردیف ہے ، کم اور دم دونوں ہم آواز الفاظ ہیں یہ ہر شعر میں بدلتے رہیں گے ۔ دم کی جگہ خم، نم، ہم وغیرہ سب آسکتے ہیں. ہاں نکلے اپنی جگہ برقرار رہے گا. کیوں کہ نکلے ردیف ہے. اور ردیف کی تعریف ہی یہی ہے کہ جو پورے کلام میں قافیے کے بعد بار بار لائی جائے ۔
قافیہ کے آخری حرف کو حرف روی کہتے ہیں ۔ حرف روی سے پہلے کا حرف اگر متحرک ہے تو سارے قوافی اسی حرکت کے استعمال ہونگے جیسے بادل کا قافیہ کاجل آنچل وغیرہ ہونگے ۔ دِل کا قافیہ غلط ہے ، غور کا قافیہ اور، طور وغیرہ ہوگا حور اور نور نہیں ہوگا ۔
اور اگر حرف روی سے پہلے کا حرف ساکن ہے تو اس ساکن حرف سے پہلے والے حرف کی جو حرکت ہے وہی حرکت ہر قافیہ میں بار بار لانی۔پڑے گی جیسے برابر سکندر مقدر وغیرہ مسافر اور مقابر اس کے قوافی نہیں ہوں گے ۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
اگر اس میں غور کریں گے تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یار اور انتظار قافیہ ہیں، ہوتا ردیف ہے اور ر حرف روی ہے۔
قافیہ کا تعین کرتے وقت مطلع میں ہی کافی غور و خوض کرلینا چاہیئے. تاکہ پوری غزل لکھتے وقت قافیہ کی تنگی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ جیسے احسان اور ایمان دونوں کے آخر میں دیکھیں تو الف اور نون ملتے ہیں اور اس سے پہلے میم اور سین ہیں، یہاں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آگے ہر شعر میں ایسا ہی قافیہ استعمال کرنا ہے جس کے آخر میں الف اور نون ہو جیسے ارمان، پہچان ، نادان وغیرہ ۔ اور اس قافیہ پر مکمل کلام لکھنا آسان ہے کیوں کہ قافیہ کی فراوانی ہے. لیکن اگر ہم نے مطلع ہی میں ایران اور ویران کا قافیہ باندھ دیا تو ی ر ا ن چار حرف ایک جیسے ہوجائیں گے سب کی قافیہ میں رعایت کرنی پڑے گی یا کو حرف روی بناکر اس سے پہلے زیر والے الفاظ ڈھونڈھنے پڑیں گے اور اسی مناسبت سے اگلے اشعار میں قوافی لانے ہوں گے اور ایسا کرنا بہت مشکل ہوجائیگا، اس لئے قافیہ کے بارے میں مطلع میں ہی غور کرلینا چاہیئے. اگر اس میں ایران کے ساتھ سامان قافیہ استعمال کردیا تو اب اس پر آپ کو بہت سارے قوافی مل جائیں گے ۔
بہت سے کلام غیر مردف ہوتے ہیں یعنی ان میں الگ سے ردیف نہیں ہوتی ۔بس آخر کے حرف اور اس سے پہلے کی حرکت کا اعتبار ہوتا ہے.
جیسے احمد فراز صاحب کا شعر ہے
نہ کوئی تازہ رفاقت نہ یار دیرینہ
وہ قحط عشق کہ دشوار ہوگیا جینا
اس میں ردیف نہیں ہے. اس کے قوافی مینا پینا سینہ وغیرہ ہوں گے. ایسے کلام کو غیر مردف کلام کہتے ہیں ۔
اگر کسی غزل کے قوافی میں ہااور الف دونوں استعمال کرنا ہے تو مطلع میں ہی قید توڑنی پڑے گی. جیسے فراز کے اسی مطلع میں ہی دیکھ لیجئے کہ پہلا مصرع دیرینہ ہ کے ساتھ اور دوسرا مصرع جینا الف کے ساتھ کرکے دونوں طرح کے قوافی استعمال کرنے کا راستہ کھول دیا. اب آگے اسی غزل میں پارینہ ہ آئینہ وغیرہ ہا کے ساتھ بھی استعمال کرسکتے ہیں اور پینا ،مینا الف کے ساتھ بھی ۔
قافیہ میں حروف کے ساتھ حرکت کا بھی مکمل دخل ہے اگر حروف ایک جیسے ہونے کی شرط ہے تو ان کی حرکتیں بھی ایک جیسی ہی ہونی چاہئیں ۔ جیسے ارمان پہچان میں، غرور اور سرور میں، غور کا قافیہ اور ہوگا طور ہوگا. لیکن حور اور نور نہیں ہوگا. بادل کا قافیہ گل نہیں ہوگا ، پاگل کا قافیہ دِل نہیں ہوگا.
نوٹ ۔ جولوگ پرسنل پر سیکھنا چاہتے ہیں وہ واٹساپ کے بٹن پر کلک کرکے رابطہ کرسکتے ہیں ۔