17 دسمبر، 2020

میں ساری دنیا کی قدر دانی کا کیا کروں گا

.......... غزل........... 


میں ساری دنیا کی قدر دانی کا کیا کروں گا

 بچھڑ کے تم سے میں زندگانی کا کیا کروں گا


مجھے اگر تو نہیں میسر تو کیا ملا پھر

میں سوچتا ہوں کہ اس جوانی کا کیا کروں گا


وہ جس میں کردار ہو تمہارا نہ تذکرہ ہو

بھلا میں ایسی کسی کہانی کا کیا کروں گا


مرے لئے بس تمہاری قربت ہی زندگی ہے

میں اس زمانے کی مہربانی کا کیا کروں گا


فراق ہو یا وصال ہو کھل کے ہو وگرنہ 

میں لے کے اس ربطِ درمیانی کا کیا کروں گا


مجھے فقط چاہیئے ترے عشق کا حوالہ

میں ساری دنیا کی حکمرانی کا کیا کروں گا


وہی مری مہربانیوں کو بتا رہا ہے 

کہا تھا جس نے کہ مہربانی کا کیا کروں گا


تمہاری قیمت پہ مل رہی ہو جو شادمانی

تو میں بھلا ایسی شادمانی کا کیا کروں گا


وہ لے تو جائیگا اپنی بخشی ہوئی انگوٹھی

جو دل پہ ہے نقش اس نشانی کا کیا کروں گا


مجھے وہی ایک شخص مطلوب تھا نذیری

میں اِس فلانے کا اُس فلانی کا کیا کروں گا


مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو

7 دسمبر، 2020

میں اس کو کرکے اشارا نہیں بلاؤں گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔۔۔۔


میں اس کو کرکے اشارا نہیں بلاؤں گا

چلا گیا تو دوبارا نہیں بلاؤں گا


چلا گیا تو خسارا مرا بھی ہے لیکن

میں جھیل لوں گا خسارا نہیں بلاؤں گا


اسی زمیں سے مجھے روشنی اگانی ہے

میں آسمان سے تارا نہیں بلاؤں گا


مرے بڑھاپے کی لاٹھی بنے میرا بیٹا

میں اور کوئی سہارا نہیں بلاؤں گا


میں کیا کروں کہ مجھے منتیں نہیں آتیں

میں اس، کو کہہ کے "خدارا" نہیں بلاؤں گا


میں ڈوب جاؤں گا موجوں کا سامنا کرکے

مگر میں جھک کے کنارا نہیں بلاؤں گا


بلاؤں جھک کے نذیری اسے تو آئیگا 

مجھے نہیں ہے گوارا نہیں بلاؤں گا 


مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو

             naziriqasmi.blogspot.com

6 دسمبر، 2020

اب جب کہ آگئے ہیں سرِ دار کیا کریں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *غزل* ۔۔۔۔۔۔۔

اب جب کہ آگئے ہیں سرِ دار کیا کریں
ہم اپنی آرزوؤں کا اظہار کیا کردیں

اب وقت آخری ہے تو اے زندگی بتا
اقرار کیا کریں ترا انکار کیا کریں

کرتے نہ یوں گذارش احوال آپ سے
پر زندگی بھی ہوگئی دشوار کیا کریں

طوفاں میں ہر طرف ہے سفینہ گھرا ہوا
ساحل کے دور تک نہیں آثار کیا کریں

انسانیت کا خون ہے سارے جہان میں
انسانیت پہ فخر حیا دار کیا کریں

زندہ تھے ہم تو قدر ہماری نہ ہوسکی
اب مرگئے ہیں ہم تو عزا دار کیا کریں

گذرا ہے قافلہ تو یہ بھوکے نہ اٹھ سکے
بول اے امیر شہر یہ لاچار کیا کریں

برسیں نہ ہم پہ کیوں اے نذیری نوازشیں
پر ہم بلا کے ٹھہرے ہیں خود دار کیا کریں

مسیح الدین نذیری


5 دسمبر، 2020

درد وہ جھیلے کہ میرے ہوگئے ارمان چپ

محترم قارئین. بلاگ کے ساتھ ساتھ یوٹیوب ویڈیو کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے .
 انشاءاللہ دھیرے دھیرے تمام سلسلوں کو ویڈیو فارمیٹ میں بھی پیش کیا جائیگا.  
.آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ ویڈیو دیکھیں اور یوٹیوب پر  ہمارے چینل کو سبسکرائب کریں۔ 


3 دسمبر، 2020

جس نے دیکھا شہِ کونین کے دربار کا رنگ

 ۔۔۔۔۔نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم.......


جس نے دیکھا شہِ کونین کے دربار کا رنگ

اس کو ہر رنگِ زمانہ لگے بیکار کا رنگ


امن مل مل جائے سسکتی ہوئی دنیا تجھ کو

تجھ پہ چڑھ جائے اگر سیدِ ابرار کا رنگ


سوچتا ہوں تجھے طیبہ تو سکوں ملتا ہے

جانے کیا حال ہو جب دیکھ لوں اُس پار کا رنگ


اس نے سوچا تھا کہ جھٹلائے گا پیغمبر کو

اور پھر چڑھ گیا کنکر پہ بھی اقرار کا رنگ


عمر بھر ماند نہیں پڑتا ہے پھر رنگ اس کا

جس پہ اک بار چڑھے احمدِ مختار کا رنگ


آئیے عام کریں رحمتِ عالم کا پیام

نفرتیں ختم کریں دل پہ کریں پیار کا رنگ


سبزِ گنبد سے ہٹے آنکھ تو پھر میں دیکھوں

باغِ جنت ترے دلکش گل و گلزار کا رنگ


مدحتِ شاہ امم کفر کے گلیاروں میں

*"ہے جدا سب سے مری جراتِ گفتار کا رنگ"*


ہجر کے کرب سے کچھ اور نکھر جاتا ہے

 شہرِ طیبہ ترے عاشق ترے بیمار کا رنگ


ذکرِ بوبکر و عمر حضرتِ عثمان و علی

اب بھی سنتے ہی بدل جاتا ہے کفار کا رنگ


عرش سے آگئے اک پل میں خدا سے مل کر

دیکھنا ہے تو یہاں دیکھئے رفتار کا رنگ


دیکھ آئے ہیں نذیری جو درِ شاہِ امم

ان سے تاعمر نہیں اترے گا دیدار کا رنگ


مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو

                  

        

2 دسمبر، 2020

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ 

انشاءاللہ 4 دسمبر بروز جمعہ شام سات بجے ہمارے فیس بک پیج سے ممبرا کے کچھ نامور شعرا لائیو آرہے ہیں ۔جن میں سے کچھ نام پیش ہیں ۔

(1) ندیم صدیقی صاحب۔  (2)  اعجاز ہندی صاحب. (3) ہنگامہ اعظمی صاحب (4) اسلم ساحر صاحب (5) الیاس قیصر (6)  مسیح الدین نذیری (7) کمال فرخ آبادی (8) اور ہمارے میزبان تابش رامپوری صاحب.  ۔ پیج کا لنک نیچے دیکھ لیں. 

fb.me/qasmighazals


https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=3695357737196729&id=1590771434322047&sfnsn=wiwspmo

29 نومبر، 2020

نویدصبح نو پیغام رحمت بن کے آئی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *بیٹی* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نویدصبح نو پیغام رحمت بن کے آئی ہے

مری بیٹی مرے گھر خیر برکت بن کے آئی ہے


یہ سچ ہے بیٹیاں جب ڈھال ہیں نار جہنم سے

تو پھر وہ میری جنت کی بشارت بن کے آئی ہے


مرے آقا بھی بیٹی کو بہت محبوب رکھتے تھے

مری بیٹی مرے آقا کی سنت بن کے آئی ہے


وفا اخلاص الفت دوستی ایثار و قربانی

مری بیٹی ہر اک شے کی علامت بن کے آئی ہے


خدا خوش جس سے ہو اس گھر میں بیٹی بھیج دیتا ہے

مری بیٹی مرے رب کی عنایت بن کے آئی ہے


ہیں گھر کی رونقیں ان بیٹیوں سے یہ حقیقت ہے

میری بیٹی مرے گھر نور و نکہت بن کے آئی ہے


نبی کہتے ہیں ان کی پرورش کرنا عبادت ہے 

تو پھر بیٹی مری , میری عبادت بن کے آئی ہے


سکوں دیتی ہیں کتنا بیٹیاں جب گھر میں ہوتی ہیں

مری بیٹی یقینا میری راحت بن کے آئی ہے


نذیری گھر میں بیٹی ہو تو گھر میں نور ہوتا ہے.

تو گویا میری بیٹی گھر کی زینت بن کے آئی ہے



           مسیح الدین نذیری

28 نومبر، 2020

کس چیز کی قلت ہے اللہ ترے گھر میں

 ۔۔۔۔۔نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔


کس چیز کی قلت ہے اللہ ترے گھر میں 

کیڑوں کو غذا ان کی پہونچاتاہے پتھر میں


اس شخص کے گھر اکثر چولھا نہیں جلتا ہے

رہتی ہے شہنشاہی جس شخص کی ٹھوکر میں


جو نازِ بلاغت تھے قرآں پہ جنھیں شک تھا

وہ رہ گئے چکرا کر اک سورۂ کوثر میں


اس وقت بھی امت کو بھولے نہ مرے آقا

بیٹھے تھے شبِ اسری جب رب کے برابر میں


خورشید و قمر قرباں سوجاں سے نہ کیوں کر ہوں

کچھ بات ہی ایسی ہے ان کے رخِ انور میں


وہ خلد کی دوزخ ہو وہ عرش کی کرسی ہو

دیکھ آئے تعالی اللہ آقا مرے پل بھر میں


انسان تو انساں ہے با شوق و ادب آکر 

جھکتے ہیں ملائک بھی دربارِ پیمبر میں


خورشیدِ نبوت کی تابندہ شعائیں ہیں

بوبکر میں عثماں میں فاروق میں حیدر میں


یہ نعت کا فن اس دم سمجھیں گے کہ کام آیا

سرکار نذیریؔ جب اپنا کہیں محشر میں


مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو

                     naziriqasmi.blogspot.com

25 نومبر، 2020

منزل کی آرزو ہے تو گھر سے نکل ضرور

 جام و مینا سلسلہ 30

............غزل........... 


منزل کی آرزو ہے تو گھر سے نکل ضرور

چل پھر مدد کرے گا خدا لم یزل ضرور


اے دل تجھے قسم ہے کہ اب کے مچل ضرور

سلجھا دے اپنے ہاتھ سے زلفوں کے بل ضرور


جو جھیل لے رضائے الہی سمجھ لے غم

ملتا اسی جہاں میں ہے اس کو بدل ضرور


آتی ہیں آزمائشیں پر اپنے ساتھ ساتھ

دامن میں لے کے آتی ہیں خود اپنا حل ضرور


صاحب! سبب بھی دیکھئے باغی اگر ہیں ہم

ہر اک عمل کا ہوتا ہے رد عمل ضرور


ایسے بھی لوگ ہیں جو بدلتے نہیں کبھی

رسی جلے تو راکھ پہ رہتا ہے بل ضرور


پیشِ نظر رہے کہ یہ دنیا ہے بے ثبات

سانچے میں عہدِ نو کے تو ڈھلتا ہے ڈھل ضرور


گردش میں ہے زمانہ یہ ہم کو یقین ہے 

ان کا اگر ہے آج تو اپنا ہے کل ضرور


منزل ہمیں پکارے گی اک دن یقین ہے

اپنی امید کا بھی کھلے گا کنول ضرور


حالات و واقعات کی تلخی اتار دے

لکھو تو یوں مٹھاس بھری ہو غزل ضرور


سورج سے تم بھی آنکھ ملاتے ہو صاف ہے

آیا ہے تم کو پیش دماغی خلل ضرور


حالات ہیں تو صبر نذیری کہ ایک دن

میٹھا تمہارے صبر کا آئیگا پھل ضرور


مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو

23 نومبر، 2020

ہر بات پہ وہ کرتے ہیں تکرار زبردست

 جام و مینا سلسلہ 29

........غزل........ 

ہر بات پہ وہ کرتے ہیں تکرار زبردست

یہ صاف ہے کرتے ہیں مجھے پیار زبردست

آنکھوں میں بسارکھے ہیں دریاؤں کے منظر

ابرو کو بنارکھا ہے تلوار زبردست

ہم جا بھی کہاں سکتے ہیں بچ کر کے سفر میں

ہم رکھتے ہیں اک قافلہ سالار زبردست

وہ کر نہیں سکتے کبھی حق گوئی کی جرات

لگتے ہیں جنھیں درہم و دینار زبردست

مطلب کے لئے آتے ہیں صد رنگ بہانے

ہے شیخِ شریعت کا بھی معیار زبردست

ضد ان کی وہ دربار میں لے آئیں گے ہم کو

ہم میں بھی ہے اک جراتِ انکار زبردست

تاویل ، ہوس  اور مفادات و نمائش

ہیں شیخ کے اوصاف میں یہ چار زبردست

دل بغض بھرے، لب پہ تبسم کے حسیں پھول

ہر شخص میں رہتا ہے اداکار زبردست

ہنستے ہوئے ملتے ہیں کئی دوست پرانے

سہنے ہیں مجھے پھر سے کئی وار زبردست

یہ عشق کے آزار نذیری ہیں سنبھل کر

اب آکے پھنسے آپ بھی اس بار زبردست


مسیح الدین نذیری 


22 نومبر، 2020

دھڑکن تیرا رک جانا مجبوری ہے

 ..........غزل......... 

دھڑکن تیرا رک جانا  مجبوری ہے 

اور سانسوں کا لہرانا مجبوری ہے

بن سمجھے سب کو سمجھانا مجبوری ہے 

دل تجھ کو امید دلانا مجبوری ہے

سچ ہے سانسیں آخری پائیدان پہ ہیں 

ایسے میں بھی آس جگانا مجبوری ہے

رخصت ہونے والا کہہ کر لوٹ گیا

رات ہوئی اب گھر جانا مجبوری ہے

اپنا گذرتی ریل سے ہے ایسا رشتہ

ہاتھ ہوا میں لہرانا مجبوری ہے

آنگن کی وسعت بھی تنگی ہو جیسے

آنگن میں دیوار اٹھانا مجبوری ہے

عشق ہماری گھٹی میں ہے پھر ہم کو 

غزلیں سننا غزلیں گانا مجبوری ہے

اتنی دولت اندر کیسے رکھ پاتے ہم 

آنکھوں کا موتی برسانا مجبوری ہے

اس تک اپنی بات نذیری پہونچانے کو

ہر محفل میں شعر سنانا مجبوری ہے


مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو

19 نومبر، 2020

خواب کو خواب سمجھ خواب کی تعبیر نہ دیکھ

غزل ۔ ابوسعد وصی معروفی

 خواب کو خواب سمجھ خواب کی تعبیر نہ دیکھ

ریت پر لکھی ہوئی قیس کی تحریر نہ دیکھ

ہوچکا عدل کا سورج بھی عدالت سے غروب

حکمرانوں میں اب انصاف جہانگیر نہ دیکھ

ہو سکے خود سے کنواں کھود کے پی لے پانی

ہاتھ پر ہاتھ دھرے جانب تقدیر نہ دیکھ

ہے اگر مرد مجاہد تو بڑھا اپنا قدم

ڈھال ہمت کو بنا سامنے شمشیر نہ دیکھ

دل میں آ جھانک اور الفت کی ضیا باری دیکھ

میرے محبوب فقط دور سے تصویر نہ دیکھ

عزم بس چاہیے شاہیں کے ارادوں جیسا 

 *،،رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ،،* 

اک نظر پڑنا حرج کوئی نہیں البتہ

بارہا گھوم کے یوں حسن کی تفسیر نہ دیکھ

ڈھونڈ فطرت میں لطافت کے عناصر پہلے

ورنہ میں کہتا ہوں رخہائے ضیا گیر نہ دیکھ

یوسف وقت ہے کیا ضبط جو کرلے گا وصی

ان زلیخاؤں کی تو زلف گرہ گیر نہ دیکھ


ابوسعد وصی معروفی

اسی سے جان لو کیا کر و فر رسول کا ہے

....نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم .....

اسی سے جان لو کیا کرو فر رسول کا ہے

زمیں سے عرشِ علی تک سفر رسول کا ہے

اب اپنی خیر مناؤ اے مشرکینِ عرب

خدا نے فضل کیا ہے عمر رسول کا ہے

جو آج شمس و قمر اپنی آن بان پہ ہیں

قسم ہے رب کی یہ سارا اثر رسول کا ہے

محافظ ینِ پیمبر ہیں خوں کے پیاسے بھی

یہ انقلاب یہ دستِ ہنر رسول کا ہے

جہان بھر کی سبھی رونقیں نچھاور ہیں

کچھ اتنا نور بھرا وہ نگر رسول کا ہے

وہ در کہ جس کے غلاموں پہ شاہ قرباں ہوں

پتہ ہے اسب کو کہ بس ایک در رسول کا ہے

چراغِ بولہبی بجھ گیا زمانے سے

ہر ایک سمت اجالا مگر رسول کا ہے

اٹھا کے کون رکھے آج حجرِ اسود کو

سبھی کے واسطے دم معتبر رسول کا ہے

وہ جس پہ ناز کریں آسمان والے بھی

خدا کے نور سے پر ایسا گھر رسول کا ہے

خدا کے بعد اگر کوئی مرتبہ پوچھے

کہو جواب میں تم بے خطر رسول کا ہے

میں نعتِ شوق نذیری تمام عمر لکھوں

میں خود رسول کا میرا ہنر رسول کا ہے

مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو

                          

                      


18 نومبر، 2020

چھپا ہے چاند فلک پر ستارے جاگتے ہیں

  ........... *غزل* ............

چھپا ہے چاند فلک پر ستارے جاگتے ہیں
کہ جیسے سارے محبت کے مارے جاگتے ہیں

جنونِ عشق کے سود اور خسارے جاگتے ہیں
بشکلِ آبلہ سب گوشوارے جاگتے ہیں

دلوں کے کھیل میں لفظوں پہ نیند طاری ہے
زباں خموش ہے لیکن اشارے جاگتے ہیں

وہ سوگئے جنھیں توفیقِ عشق ہونہ سکی
جنھوں نے عشق کیا ہے وہ سارے جاگتے ہیں

چہل پہل ہے بہت دھڑکنوں میں دونوں طرف
امید وصل ہے دونوں کنارے جاگتے ہیں

وہ نیند میں ہے مگر ہونٹ پر تبسم ہے
وہ محوِ خواب ہوا ہے نظارے جاگتے ہیں

تمہارے نام سے تشبیہ کا چلن مہکا
تمہارے دم سے سبھی استعارے جاگتے ہیں

ہماری ساری تگ و دو ہے بس اسی کیلئے
نصیب دیکھئے کب تک ہمارے جاگتے ہیں

بجھاؤ ان کو نذیری نہ آگ لگ جائے 
کہ نفرتوں کے ابھی کچھ شرارے جاگتے ہیں

مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو

خدایا تیری قدرت خوب ہے اس کارخانے میں

۔۔۔۔۔نعت پاک۔۔۔۔۔

خدایا تیری قدرت خوب ہے اس کارخانے میں
مقرر وقت ہے سورج چھپانے میں اگانے میں

اگرہو خواب میں دیدارِ شہر مصطفی حاصل
تو پھر اے عشق رغبت ہے مجھے خود کو سلانے میں

ادھر زنجیر در ہلتی رہی وہ آگئے جاکر 
عجب رفتار ہے عرش بریں تک جانے آنے میں

دم ہستی پہ جب شیطان حاوی ہوگیا ہرسو
محمد مصطفی تشریف لے آئے زمانے میں

الگ یہ بات بوجہل لعیں تو خود ہی عاجز ہے
مگر تونے کسر کوئی نہیں چھوڑی ستانے میں

ابوبکر و عمر عثماں علی کی داستاں پڑھئے
سبھی نایاب ہیرے ہیں نبی کے شامیانے میں

نذیری نعت گوئی کو عبادت مانتا ہوں میں 
مزہ آتا ہے مجھ کو نعتِ سرور گنگنانے میں

        مسیح الدین نذیری
                        

16 نومبر، 2020

فضائے شہر معطر کی بات کرنی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نعت پاک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فضائے شہر معطر کی بات کرنی ہے
نبی کے روضہ اطہر کی بات کرنی ہے

اے سننے والو وضو کرکے با ادب بیٹھو 
مجھے خدا کے پیمبر کی بات کرنی ہے

ملک بھی آئیں گے بیشک میری سماعت کو
کہ دو جہان کے سرور کی بات کرنی ہے

گناہ گار دلوں کو سکوں ملے گا ضرور
کہ مجھ کو شافع محشر کی بات کرنی ہے

یہ میری بزم بھی مہکے گی دل بھی جھومے گا
نبی کے خلق معطر کی بات کرنی ہے

جہاں پہ جاکے جبیں آسماں کی جھکتی ہے
مجھے نبی کے اسی در کی بات کرنی ہے

مقام حضرت صدیق خود عیاں ہوگا
کہ غار ثور کے منظر کی بات کرنی ہے

عمر کا ذکر چلا آئیگا یہاں کھنچ کر
دعائے ساقی کوثر کی بات کرنی ہے

سخاوتوں کا اثر اب بھی ہے مدینے میں 
غنی کے رتبہ برتر کی بات کرنی ہے

بنام قوم نئی روح پھونکنے کیلئے 
جناب فاتح خیبر کی بات کرنی ہے

زباں پہ ذکر نذیری ہے شاہ والا کا
تو کس کو مشک کی عنبر کی بات کرنی ہے

               مسیح الدین نذیری
                       9321372295

13 نومبر، 2020

میں سوچتا ہوں اکھڑتی سانسوں کا کیا بنے گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


میں سوچتا ہوں اکھڑتی سانسوں کا کیا بنے گا

وہی نہ آئے تو ان چراغوں کا کیا بنے گا


کبھی لکھی جائیگی اگر داستانِ الفت

تمہاری قسموں تمہارے وعدوں کا کیا بنے گا


ابھی بہت دیر کب ہوئی ہے ابھی تو جاگو

وگرنہ سوچو تمہارے بچوں کا کیا بنے گا


نہیں ہے کافی تمہارا احساس بھیج دینا

تمہیں نہ ہوگے تو صرف جذبوں کا کیا بنے گا


ہمارا کیا ہم فقیر ہیں عمر کاٹ لیں گے

پڑا اگر وقت شاہزادوں کا کیا بنے گا


عمل کی راہوں میں دو قدم بھی نہیں چلے ہو

اے بدنصیبو طویل رستوں کا کیا بنے گا


اٹھو تمہیں دار اور رسن پھر بلا رہے ہیں

نہیں اٹھے تو تمہاری نسلوں کا کیا بنے گا 


چمن دیا جائیگا خزاؤں کی دسترس میں

ذرا بتاؤ! چمن کے پھولوں کا کیا بنے گا


عذاب بن جائیں گی یہی ظالموں کے حق میں

نہ پوچھئے کہ ہماری آہوں کا کیا بنے گا


وطن پرستی کے خول میں ہیں وطن کے دشمن

وطن کی ان خوشنما بہاروں کا کیا بنے گا


اگر نہیں شوقِ سرفروشی تو پھر نذیری

ترے وظیفوں تری دعاؤں کا کیا بنے گا


مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو

اور ہونگے جو کہانی کی طرف دیکھتے ہیں

 

جام و مینا سلسلہ ۔ 26
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور ہونگے جو کہانی کی طرف دیکھتے ہیں
ہم تری شعلہ بیانی کی طرف دیکھتے ہیں

آپ دریا کی روانی کی طرف دیکھتے ہیں
ہم وہ پیاسے ہیں کہ پانی کی طرف دیکھتے ہیں

دیکھ کر تجھ کو جوانی سے گذر آئے ہوئے
لوٹ کر عہدِ جوانی کی طرف دیکھتے ہیں

اب محبت ہمیں راس آتو رہی ہے لیکن
ایسے مفلس ہیں گرانی کی طرف دیکھتے ہیں

دیکھنا ایسا کہ پگھلادے کسی پتھر کو 
اس طرح دشمنِ جانی کی طرف دیکھتے ہیں

سامنے رکھ دیا دل ہم نے مگر آپ بھی نا
اب بھی الفاظ و معانی کی طرف دیکھتے ہیں

بات جب آتی ہے خوشبو سے بھرے جسموں کی
سرپھرے رات کی رانی کی طرف دیکھتے ہیں

ہجر بے درد میں مارے گئے کچھ دیوانے
آج تک فاتحہ خوانی کی طرف دیکھتے ہیں

عشق وہ شہرِ جوانی ہے کہ جس کے اندر
سارے بہزاد ہیں مانی کی طرف دیکھتے ہیں

اس پہ کیا مرنا نذیری کہ ہے دنیا فانی
بے سبب آپ بھی فانی کی طرف دیکھتے ہیں

مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو                            9321372295
                  fb.me/qasmighazals

12 نومبر، 2020

بزم سخن ايك تعارف

                         پورہ معروف ضلع مئو کے نوجوان شعراء وادباء نے اردو زبان وادب کی خدمت کے تحت ۳۱/جنوری ۲۰۱۹ء کو ’’بزم سخن‘‘ کے نام سے ایک تحریک کی بنیاد رکھی ہے، اس بزم کے مقاصد یہی ہیں کہ شعر وادب سے دلچسپی رکھنے والے ابھرتے ہوئے نوجوانوں کو بزم سخن کے پلیٹ فارم کے ذریعہ ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو مزید نکھارنا اور مستحکم بنانا ہے۔ بزم سخن کی طرف سے ہر ماہ شعری وادبی نشست ہوتی ہے، جس میں شعراء حضرات اپنے اپنے کلام پیش کرتے ہیں اور مقالے بھی پیش کرنے کے مواقع دیئے جاتے ہیں۔ اس بزم کو پورہ معروف کے جید علماء کرام اور شعراء کی سرپرستی حاصل ہے، ان کے صلاح ومشورے سے بزم کی تحریک کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بزم کے خصوصی اراکین میں ، مولانا نوشاد احمد صاحب، مولانا مطیع اللہ مسعود قاسمی صاحب، جناب ڈاکٹر شیدا بیضا پوری، جناب حافظ عبدالرؤف، مولوی محمد نعمان فاروقی وغیرہم ہیں۔


سرپرست: مولانا مسیح الدین نذیری صاحب
قیادت: جناب کلیم معروفی صاحب
صدر: قاری ابوسعد وصی صاحب
نائب صدر: مولانا صفی الرحمان صفی صاحب
سکریٹری: مولانا ابوہریرہ یوسفی قاسمی معروفی صاحب
نائب سکریٹری: حافظ محمد افضل حماد صاحب
خزانچی: مولانا شرف الدین بیکل صاحب
اس کے علاوہ بہت سارے اعزازی ممبران بھی ہیں
پورہ معروف کے نوجوان حضرات کا یہ مستحسن اقدام قابل مبارکباد ہے۔ قوی امید ہے کہ بزم کی طرف سے اردو زبان وادب اور تعلیمی خدمات کے ساتھ دیگر خدمات بھی جاری رہیں گی۔

جھوٹ کو سچ سچ کو جھوٹا کر رہاہے

........ غزل..........

جھوٹ کو سچ سچ کو جھوٹا کر رہاہے

نام کیوں پرکھوں کا رسوا کر رہا ہے

آدمی بن جائے بس کافی یہی ہے 

آدمی کو کیوں فرشتہ کر رہا ہے

روز ہم کوڑے میں کھانا پھینکتے ہیں

اور مفلس روز فاقہ کر رہا ہے

اپنے بچے کو کفن دینے کی خاطر

اک فقیر شہر چندہ کر رہا ہے

ہر نئی ایجاد پر دیکھو ٹھہر کر

خود کو انساں کتنا تنہا کر رہا ہے

گم ہے تو اتنا کہ تیرا باپ تجھ سے

روز ملنے کی تمنا کر رہا ہے

ہر قدم تیرا ہو بامقصد نذیری

کس لئے آیا ہے تو کیا کر رہا ہے


مسیح الدین نذیری


نہ ہوسکا یہ ستم باخدا نہیں کیا ہے

 ..............غزل.................. 


نہ ہوسکا یہ ستم باخدا نہیں کیا ہے

تمہاری یاد کو دل سے جدا نہیں کیا ہے


یہ آرزو ہے کہ اولاد احترام کرے

اور اپنے باپ کا حق بھی ادا نہیں کیا ہے


اب آکے تم مری دیوانگی کو دو اعزاز

اس ایک دن کیلئے میں نے کیا نہیں کیا ہے


جھکاؤں سر تو وہ دستار سر پہ باندھے گا

یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکا نہیں کیا ہے


کیا ہے تم نے مجھے پیار، میں نے مان لیا

مگر مری طرح بے انتہا نہیں کیا ہے


حقیقتوں کا تو چھوڑو کہ آج تک اس کو

خیال و خواب میں ہم نے خفا نہیں کیا ہے


یہ عشق طالبِ وحدت ہے اس لئے ہم نے

بس ایک عشق کیا دوسرا نہیں کیا ہے


امیرِ شہر کی یہ شرط، میں کروں آداب

قسم ہے بھوک سے میں مرگیا نہیں کیا ہے


مچاؤ شور تم استاد اپنے ہونے کا

ابھی لبوں کو نذیری نے وا نہیں کیا ہے


مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو

9 نومبر، 2020

وہ میری زیست کی جب سےمٹھاس ہوگئے ہیں

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ میری زیست کی جب سےمٹھاس ہوگئے ہیں

تبھی سے ان کے بھی نخرے پچاس ہوگئے ہیں


کہوں تو کیسے کہوں ڈوبتی سی حالت میں

وہ حال اب ہے کہ تنکے بھی آس ہوگئے ہیں


اب ہم سے مل کے نکلتے ہیں راہِ عشق میں لوگ

کتابِ عشق کا ہم اقتباس ہوگئے ہیں


جنابِ شیخ ابھی کچھ نہیں کہا ہم نے

بلا وجہ ہی میاں بدحواس ہوگئے ہیں


اسے ہماری محبت سے کچھ غرض ہی نہیں

پھر اس کے واسطے ہم کیوں اداس ہوگئے ہیں


ہمیں کو دیکھا ہے نو واردوں نے عزت سے

ہم اس جہانِ محبت کی آس ہوگئے ہیں


تمہارے ریشمی پیکر کی یاد کیا آئی 

دھنک سے رنگ مرے آس پاس ہوگئے ہیں


انھیں کا نام زباں پر بوقتِ نزع رہا

ہم امتحانِ محبت میں پاس ہوگئے ہیں


نکلیے گھر سے نذیری چھپا کے چہرے کو

تمام لوگ قیافہ شناس ہوگئے ہیں

مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو

6 نومبر، 2020

درد وہ جھیلے کہ میرے ہوگئے ارمان چپ

غزل

درد وہ جھیلے کہ میرے ہوگئے ارمان چپ
عشق تونے کردیا اک بولتا انسان چپ

تیرے میرے ظرف میں بس صرف اتنا فرق ہے
شان تیری بولنا ہے اور میری شان چپ

چل رہی تھی اس کی مجلس شیخ جی بھی آگئے
شیخ کو دیکھا تو فورا ہوگیا شیطان چپ

آپ کہتے تھے کہ تم پر جان دے سکتے ہیں ہم
اک ذرا حاجت بتائی اور بھائی جان چپ

امن کی خاطر تری گالی بھی ہم سہتے گئے
ورنہ دریا میں کبھی رہتا نہیں طوفان چپ

ڈھیل جب تک دی گئی ہے بول تیرا وقت ہے
ورنہ اس کے بعد ہے فرعون چپ ہامان چپ

ان کی آنکھوں کی شرارت آپ نے دیکھی نہیں
آپ کو آئی نظر بس ان کی عالیشان چپ

جب وہ سوکھی روٹیوں کو رب کی نعمت کہہ گئے
میرے بچوں کی ادا پر ہوگیا مہمان چپ

آج ہم خود بے صدا ہیں دوسروں کا کیا قصور
ورنہ اپنے سامنے تھا روم چپ ایران چپ

وہ جو داناں ہیں خموشی ہے نذیری ان کے ساتھ
ورنہ کب ہوتا ہے دنیا میں کوئی نادان چپ

مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو
                   

1 نومبر، 2020

ردیف کا بیان

ردیف کا بیان

     محترم قارئین!  ہم نے قافیہ اور حرف روی کے بارے میں جان لیا اور ہمیں معلوم ہوگیا کہ شاعری کا سارا دور و مدار قافیہ پر ہے.  یہی اہمیت ردیف کی بھی ہے. قافیہ کے بغیر بھی شاعری پھیکی اور بے رنگ ہوتی ہے شاعری میں وہی اہمیت ردیف کی بھی ہے.  ردیف کی جدت اور تازگی بہتر سے بہتر مضامین کو شاعری میں باندھنے میں مدد دیتی ہے صرف ردیف کے بدلنے سے قافیہ کا مطلب اور حیثیت بدل جاتی ہے ،مفہوم اور خیالات میں لطف پیدا ہوجاتا ہے ردیف جتنی اچھوتی ہوتی ہے، شعر میں اتنا ہی اچھا مضمون پیدا ہوتا ہے.  ترنم میں اتنی ہی جاذبیت پیدا ہوتی ہے. کلام میں اتنی ہی موسیقیت آجاتی ہے. ۔

ردیف کی تعرف :-

 شعر کے آخر میں قافیے کے بعد جو حروف اور الفاظ آتے ہیں انھیں ردیف کہتے ہیں جیسے 

گلوں میں رنگ لئے باد نو بہار چلے 

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

اس میں بہار اور کاروبار قافیہ ہے اور چلے ردیف ہے ۔کاروبار اور بہار کا لفظ بدلتا رہے گا. مگر چلے اپنی جگہ قائم رہے گا کیوں کہ چلے ردیف ہے اور ردیف کبھی نہیں بدلتی ۔ ردیف کے الفاظ و حروف کا من و عن آنا ضروری ہے یہ ظاہری طور پر کبھی نہیں بدل سکتے ۔ ہاں اگر معنوی طور پر بدل جائیں تو اسے عیب نہیں کہتے بلکہ اسے خوبی کہا جائے گا کیوں کہ اس سے شاعر کے کمالات کا پتہ چلتا ہے کہ اسے الفاظ و خیالات کو صحیح طور پر برتنے پر قدرت حاصل ہے۔ جیسے

پہلے بہت غرور تھا اپنی اڑان پر

محسوس کر رہے ہیں مگر اب تھکان پر

اس شعر میں ردیف کے حروف اپنی اصلی حالت پر باقی ہیں لیکن معنوی طور پر الگ الگ ہیں یہ حسن مانا جائے گا.  عیب نہیں مانا جائے گا ۔ 

یاد رہے کہ ردیف کا معنوی اعتبار سے قافیہ میں پیوست ہونا ضروری ہے. ایسا نہ ہو کہ زبردستی قافیہ کے بعد ردیف مسلط کردی جائے بلکہ اس میں معنویت کی مکمل ہم آہنگی ہونی چاہیئے ۔ ورنہ شعر مہمل ہوجائے گا۔ 

ہم نے دو چیزوں کے بارے میں معلومات حاصل کی ۔ 

نمبر ایک ردیف نمبر دو قافیہ 

میں خود جلوں جلے مرا گھر اس کو اس سے کیا

دشمن کے دل پہ کیسا اثر اس کو اس سے کیا

غزل کے اس مطلع میں اگر ہم بائیں سے دائیں دیکھیں تو" اس کو اس سے کیا " دونوں مصرعوں میں ٹکرا رہے ہیں یعنی یہ الفاظ مکرر استعمال ہو رہے ہیں تو یہ ردیف کہلائیں گے ۔ 

 اگر مزید بائیں کو دیکھیں تو ہمارے پاس دو لفظ ہیں۔ پہلے مصرع میں گھر جب کہ دوسرے مصرع میں اثر اور دونوں لفظوں کا آخری حرف ر ہے یہی حرف روی کہلاتا ہے. اسی کو مدارِ قافیہ بھی کہتے ہیں ۔ اور اس سے پہلے والے حرف پر زبر ہے۔  گویا الفاظ یا حروف تو ظاہراً بدل گئے ہیں مگر ان کی آواز اور حرکت نہیں بدلی۔ دونوں کے اوپر زبر کی علامت ہی ہے۔ تو یہ قافیہ کا اصول ہوا۔ کہ ہم حرف تو بدل سکتے ہیں مگر اس حرف کی علامت کو نہیں بدل سکتے۔ اگر حرف کے اوپر زبر ہے تو زبر ، اگر زیر ہے تو زیر اور اگر پیش ہے تو پیش آئے گا. اگرچہ کچھ اساتذہ نے قافیہ کے تنگی کی صورت میں حرف روی سے پہلے والے حرف کی حرکت بدلنے کی اجازت دی ہے اور اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں ۔ مگر عیب تو عیب ہوتا ہے. چاہے کہیں بھی پایا جائے. 

قافیہ اور ردیف کے بارے میں بہتر طور پر جاننے اور سمجھنے کے لئے سب سے بہتر اور سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اساتذہ کے کلام کا مطالعہ کیا جائے.  انھیں پڑھا جائے اور سمجھا جائے اور اس پر عملی مشق کی جائے.  سب کچھ دماغ میں بیٹھ جائے گا.  اور سارا مسئلہ حل ہوجائے گا.  

کرنے کے کام :۔ 

ترے جذبوں میں طغیانی بہت ہے

تجھے لٹنے میں آسانی بہت ہے

اس شعر کے حساب سے کم از کم دس قافیہ لکھئے.  اور مشق کیجئے.  

نوٹ ۔ جولوگ پرسنل پر سیکھنا چاہتے ہیں وہ واٹساپ کے بٹن پر کلک کرکے رابطہ کرسکتے ہیں ۔ نیز کسی قسم کے سوال و جواب کیلئے بھی واٹساپ یا پھر کمینٹ کا سہارا لیا جاسکتا ہے ۔

29 اکتوبر، 2020

قافیہ کے بارے میں ۔سلسلہ نمبر 2

 قافیہ کے بارے میں ۔سلسلہ نمبر 2

پچھلے سبق میں ہم نے قافیہ کے بارے میں پڑھا اور یہ جانا کہ قافیہ مطلع کے دونوں مصرعوں میں ردیف سے پہلے آتا ہے. اور غزل کے ہر شعر کے دوسرے مصرع میں ردیف سے پہلے آتا ہے ۔ 

ہم نے حرف روی کے بارے میں پڑھا کہ قافیہ کا آخری حرف حرفِ روی کہلاتا ہے حرف روی کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ جس طرح حرف روی کا ہم مخرج اور ہم صوت ہونا ضروری ہے اسی طرح اس کا ہم شکل ہونا بھی ضروری ہے جیسے بارات، سوغات،  رات . یا بازی اور غازی ۔ رات کا قافیہ بساط یا بازی کا قافیہ قاضی نہیں ہوسکتا.  کیوں کہ دونوں میں حرفِ روی الگ الگ حروف ہیں ۔ 

اس بارے میں مکمل بحث اپنی جگہ پر آئے گی۔

قافیہ کا بامعنی ہونا بھی ضروری ہے. قافیہ مہمل نہیں ہوسکتا۔

قافیہ کا سارا دار و مدار ہی حرف روی پر ہوتا ہے.  جس طرح حرف کے مقابلہ میں حرف کا ہونا ضروری ہے اسی طرح حرکت کے مقابلہ میں حرکت کا ہونا بھی ضروری ہے.  ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک جگہ قافیہ اقارب استعمال کریں دوسری جگہ رب کردیں ۔ 

آئیے ہم ایک غزل میں قافیہ اور حرف روی کی تلاش کرکے اس سبق کی عملی مشق کرلیں پھر شاعری کی دوسری ضروری باتوں کی طرف بڑھیں.  


عشق کو اپنے جہاں والے بھی تسلیم کریں

کیا محبت میں ہم اس قلب کو دو نیم کریں


کیا ضرورت ہے بھٹکنے کی زمانے بھر میں

عشق کے واسطے جب دل کو ہی اقلیم کریں


میں نے اک عمر کسی نام پہ قرباں کردی

آکے عشاق ملیں اور مری تعظیم کریں


دل دماغ اور نظر کرلیں کوئی سمجھوتہ

خود کو ہم عشق میں کتنی جگہ تقسیم کریں


ایک ارمان مچلتا ہے ابھی رہ رہ کر 

آپ کے ساتھ کوئی شین الف میم کریں


ان کو الفاظ سمجھ ہی میں نہیں آتے ہیں

دل کے جذبات کی کس طرح سے تجسیم کریں


تو ہے دیوانہ تو صحرا کو نکل جانا تھا

کیا ترے واسطے قانون میں ترمیم کریں


دل بنا پیش امام اپنا نذیری صاحب

صاحبِ عقل , جنوں کی مرے تکریم کریں


اس غزل میں قافیہ اور حرف روی کی نشاندہی کے ساتھ داستان لفظ کے کم از کم 7 قافیہ لکھیں ۔ 

نوٹ ۔ جولوگ پرسنل پر سیکھنا چاہتے ہیں وہ واٹساپ کے بٹن پر کلک کرکے رابطہ کرسکتے ہیں ۔ نیز کسی قسم کے سوال و جواب کیلئے بھی واٹساپ یا پھر کمینٹ کا سہارا لیا جاسکتا ہے ۔


26 اکتوبر، 2020

قافیہ کا بیان

شاعری سیکھیں سلسلہ 

قافیہ کا بیان

                 قافیہ کا دخل شاعری میں سب سے زیادہ ہے ۔ اگر شاعری میں سے قافیہ نکال دیا جائے تو پھر شاعری کے اندر کچھ بھی نہیں بچتا ، قافیہ اور ردیف ہی شاعری کی جان ہیں. آپ نے دیکھا ہوگا کہ فیس بک وغیرہ پر بہت سے لوگ شاعری کے نام پر بہت کچھ پوسٹ کرتے ہیں ان میں فنی لوازمات کہیں بھی نہیں پائے جاتے مگر قافیہ کا دھیان ضرور رکھا جاتا ہے. قافیہ ہی شاعری کا اصل حسن ہے،  شاعری کا سارا حسن اور کشش قافیہ کی ہی دین ہے. قافیہ ہی شاعری کی خوبصورتی ہے. یہاں تک کہ جن لوگوں کی طبیعت شاعری کے لئے موزوں نہیں ہوتی وہ لوگ بھی قافیہ کی تمیز رکھتے ہیں ۔

قافیہ کے معنی  لغت میں ۔  پیچھے آنے والا

اصطلاح میں قافیہ ان حروف و حرکات کا نام ہے جو مطلع کے ہر مصرع میں اور ہر شعر کے دوسرے مصرع کے آخر میں آئے ۔ قافیہ کا استعمال ردیف سے پہلے ہوتا ہے. لیکن کچھ کلام غیر مردف بھی ہوتے ہیں یعنی ان میں الگ سے ردیف کا استعمال نہیں ہوتا ۔ 

آئیے مثال میں قافیہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.  

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

غالب کے اس کلام میں دم اور کم قافیہ ہیں اور نکلے ردیف ہے ، کم اور دم دونوں ہم آواز الفاظ ہیں یہ ہر شعر میں بدلتے رہیں گے ۔ دم کی جگہ خم، نم،  ہم وغیرہ سب آسکتے ہیں.  ہاں نکلے اپنی جگہ برقرار رہے گا.  کیوں کہ نکلے ردیف ہے.  اور ردیف کی تعریف ہی یہی ہے کہ جو پورے کلام میں قافیے کے بعد بار بار لائی جائے ۔ 

قافیہ کے آخری حرف کو حرف روی کہتے ہیں ۔ حرف روی سے پہلے کا حرف اگر متحرک ہے تو سارے قوافی اسی حرکت کے استعمال ہونگے جیسے بادل کا قافیہ کاجل آنچل وغیرہ ہونگے ۔ دِل کا قافیہ غلط ہے ، غور کا قافیہ اور، طور وغیرہ ہوگا حور اور نور نہیں ہوگا ۔ 

اور اگر حرف روی سے پہلے کا حرف ساکن ہے تو اس ساکن حرف سے پہلے والے حرف کی جو حرکت ہے وہی حرکت ہر قافیہ میں بار بار لانی۔پڑے گی جیسے برابر سکندر مقدر وغیرہ مسافر اور مقابر اس کے قوافی نہیں ہوں گے ۔ 

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا 

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا 

اگر اس میں غور کریں گے تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یار اور انتظار قافیہ ہیں،  ہوتا ردیف ہے اور ر حرف روی ہے۔

قافیہ کا تعین کرتے وقت مطلع میں ہی کافی غور و خوض کرلینا چاہیئے. تاکہ پوری غزل لکھتے وقت قافیہ کی تنگی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ جیسے احسان اور ایمان دونوں کے آخر میں دیکھیں تو الف اور نون ملتے ہیں اور اس سے پہلے میم اور سین ہیں،  یہاں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آگے ہر شعر میں ایسا ہی قافیہ استعمال کرنا ہے جس کے آخر میں الف اور نون ہو جیسے ارمان، پہچان ، نادان وغیرہ ۔ اور اس قافیہ پر مکمل کلام لکھنا آسان ہے کیوں کہ قافیہ کی فراوانی ہے.  لیکن اگر ہم نے مطلع ہی میں ایران اور ویران کا قافیہ باندھ دیا تو ی ر ا ن چار حرف ایک جیسے ہوجائیں گے سب کی قافیہ میں رعایت کرنی پڑے گی یا کو حرف روی بناکر اس سے پہلے زیر والے الفاظ ڈھونڈھنے پڑیں گے اور اسی مناسبت سے اگلے اشعار میں قوافی لانے ہوں گے اور ایسا کرنا بہت مشکل ہوجائیگا،  اس لئے قافیہ کے بارے میں مطلع میں ہی غور کرلینا چاہیئے. اگر اس میں ایران کے ساتھ سامان قافیہ استعمال کردیا تو اب اس پر آپ کو بہت سارے قوافی مل جائیں گے ۔ 

بہت سے کلام غیر مردف ہوتے ہیں یعنی ان میں الگ سے ردیف نہیں ہوتی ۔بس آخر کے حرف اور اس سے پہلے کی حرکت کا اعتبار ہوتا ہے.  

جیسے احمد فراز صاحب کا شعر ہے 

نہ کوئی تازہ رفاقت نہ یار دیرینہ

وہ قحط عشق کہ دشوار ہوگیا جینا

اس میں ردیف نہیں ہے.  اس کے قوافی مینا پینا سینہ وغیرہ ہوں گے.  ایسے کلام کو غیر مردف کلام کہتے ہیں ۔

اگر کسی غزل کے قوافی میں ہااور الف دونوں استعمال کرنا ہے تو مطلع میں ہی قید توڑنی پڑے گی. جیسے فراز کے اسی مطلع میں ہی دیکھ لیجئے کہ پہلا مصرع دیرینہ ہ کے ساتھ اور دوسرا مصرع جینا الف کے ساتھ کرکے دونوں طرح کے قوافی استعمال کرنے کا راستہ کھول دیا.  اب آگے اسی غزل میں پارینہ ہ آئینہ وغیرہ ہا کے ساتھ بھی استعمال کرسکتے ہیں اور پینا ،مینا الف کے ساتھ بھی ۔

قافیہ میں حروف کے ساتھ حرکت کا بھی مکمل دخل ہے اگر حروف ایک جیسے ہونے کی شرط ہے تو ان کی حرکتیں بھی ایک جیسی ہی ہونی چاہئیں ۔ جیسے ارمان پہچان میں،  غرور اور سرور میں،  غور کا قافیہ اور ہوگا طور ہوگا.  لیکن حور اور نور نہیں ہوگا. بادل کا قافیہ گل نہیں ہوگا ، پاگل کا قافیہ دِل نہیں ہوگا. 

نوٹ ۔ جولوگ پرسنل پر سیکھنا چاہتے ہیں وہ واٹساپ کے بٹن پر کلک کرکے رابطہ کرسکتے ہیں ۔

 

24 اکتوبر، 2020

ہے یہاں دل کے مرے آئینہ خانوں میں تڑپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مینائے غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہے یہاں دل کے مرے آئینہ خانوں میں تڑپ

چھیڑ مت اے برق تو جا آسمانوں میں تڑپ


رہ گئی اپنی فقط اب داستانوں میں تڑپ

اب تڑپ موجوں میں ہے نہ بادبانوں میں تڑپ


آپ کے قدموں میں یہ کہسار پھر جھک جائیں گے 

لے تو آئیں آپ بھی پہلے اذانوں میں تڑپ


دل تڑپتا ہی نہ ہو تو بات سب بیکار ہے

لاکھ رکھیں حضرتِ واعظ بیانوں میں تڑپ


خود عمر سامانِ خورد و نوش لائے پیٹھ پر

پھر نہ دیکھی جاسکی وہ حکمرانوں میں تڑپ


پھر تڑپتی ہے زمیں اور پھینک دیتی ہے اناج

اس سے جب دیکھی نہیں جاتی کسانوں میں تڑپ


یہ مشینی دور ہے  بس ملئے  انٹرنیٹ پر

اب نہیں پہلے سی باقی دوستانوں میں تڑپ


تنگ دامانی پہ اپنی ہاتھ مل کر رہ گئی

جب شبِ فرقت نے دیکھی ہم دوانوں میں تڑپ


 زندگی جب تھی نذیری قدر داں کوئی نہ تھا

مرگئے جب ہم تو جاگی نوحہ خوانوں میں تڑپ


مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو

                 naziriqasmi.blogspot.com

                  fb.me/qasmighazals

22 اکتوبر، 2020

اللہ کی قسم جان سے پیارے ہیں صحابہ

مدحِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین

اللہ کی قسم جان سے پیارے ہیں صحابہ

ہم صاحبِ ایماں ہیں ہمارے ہیں صحابہ 


حاصل ہے ضیا ان کو پیمبر کی ضیا سے

آقا ہیں اگر چاند ستارے ہیں صحابہ 


ایماں ہے میرا ان میں کمی ہو نہیں سکتی 

سرکار دوعالم کے سنوارے ہیں صحابہ


 وہ دل کبھی حقدار نہیں خلد بریں کا 

جس دل میں نہیں دل سے کنارے ہیں صحابہ 


لے آئے ہیں جو سرورٍ عالم اسی دیں کا

معیار حسیں سارے کے سارے ہیں صحابہ 


وہ جنگ کا میدان ہو یا امن کی گلیاں

آقا پہ دل و جان سے وارے ہیں صحابہ 


ممکن نہیں ان کا کوئی ہمسر ہو نذیری

اخلاص کے تقوی کے منارے ہیں صحابہ


مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو

      


20 اکتوبر، 2020

اک دوسرے کے درد کی پروا کئے بغیر

#نذیریات 21
۔۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔۔۔۔

اک دوسرے کے درد کی پروا کئے بغیر
انسان جی رہا ہے یہ صدقہ کئے بغیر

یوں بھی ہوا کہ ہم نے بصد شوق و انہماک
دیکھا ہے تجھ کو تیری تمنا کئے بغیر

دیتے ہیں درس عفو و تحمل کا صبر کا
اور شیخ خود ہی جیتے ہیں ایسا کئے بغیر

دیکھے امیرشہر کہ زندہ ہوں میں ابھی 
اپنے  ضمیر و ظرف کا سودا کئے بغیر

کیا اس کی گفتگو کا بھروسہ کریں کہ جو
سچ بول بھی نہ پائے ارادہ کئے بغیر

بچپن وہ کھل کے کیسے ہنسے جس نے مستقل
دو دن نہیں گزارے ہیں فاقہ کئے بغیر

یہ سچ ہے راہ عشق نذیری ہے پر خطر
پر ہم بھی آج چل پڑے پروا کئے بغیر

مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو

اور ہونگے جو کہانی کی طرف دیکھتے ہیں

جام و مینا سلسلہ ۔ 26
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اور ہونگے جو کہانی کی طرف دیکھتے ہیں
ہم تری شعلہ بیانی کی طرف دیکھتے ہیں

آپ دریا کی روانی کی طرف دیکھتے ہیں
ہم وہ پیاسے ہیں کہ پانی کی طرف دیکھتے ہیں

دیکھ کر تجھ کو جوانی سے گذر آئے ہوئے
لوٹ کر عہدِ جوانی کی طرف دیکھتے ہیں

اب محبت ہمیں راس آتو رہی ہے لیکن
ایسے مفلس ہیں گرانی کی طرف دیکھتے ہیں

دیکھنا ایسا کہ پگھلادے کسی پتھر کو 
اس طرح دشمنِ جانی کی طرف دیکھتے ہیں

سامنے رکھ دیا دل ہم نے مگر آپ بھی نا
اب بھی الفاظ و معانی کی طرف دیکھتے ہیں

بات جب آتی ہے خوشبو سے بھرے جسموں کی
سرپھرے رات کی رانی کی طرف دیکھتے ہیں

ہجر بے درد میں مارے گئے کچھ دیوانے
آج تک فاتحہ خوانی کی طرف دیکھتے ہیں

عشق وہ شہرِ جوانی ہے کہ جس کے اندر
سارے بہزاد ہیں مانی کی طرف دیکھتے ہیں

اس پہ کیا مرنا نذیری کہ ہے دنیا فانی
بے سبب آپ بھی فانی کی طرف دیکھتے ہیں

مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو 


17 اکتوبر، 2020

جناب شیخ بھی بیکار جھوٹ بولتے ہیں

********* *غزل* *******


یہ پارسا وہ گنہگار جھوٹ بولتے ہیں

سبھی ہیں سچ کے طلبگار جھوٹ بولتے ہیں 


جو بیچ دیتا ہے ہر بات جھوٹ بتلاکر 

اسی سے اس کے خریدار جھوٹ بولتے ہیں


 ہم ان کی ساری حقیقت سے خوب واقف ہیں 

جناب شیخ بھی بیکار جھوٹ بولتے ہیں


فقط یہ سچ کے لبادے ہیں اور کچھ بھی نہیں 

تمام صاحب کردار جھوٹ بولتے ہیں 


 یہاں پہ جھوٹ ہی بکتا ہے سچ کے پردے میں

تو آؤ ہم بھی مزےدار جھوٹ بولتے ہیں


ہر ایک سمت مرے ملک میں ہے خوشحالی

خبر یہ لکھتے ہیں اخبار جھوٹ بولتے ہیں 


جو نفرتیں لئے پھرتے ہیں سچ نہیں کہتے

جو خود ہیں سچ کے علمدار جھوٹ بولتے ہیں


امیر شہر رعایا سے جھوٹ کہتا ہے

اور اس سے اس کے وفادار جھوٹ بولتے ہیں


تمہاری پشت پہ ہم ہیں تو تم کو غم کیسا

یہ کہہ کے مجھ سے مرے یار جھوٹ بولتے ہیں


جو لے کے آتے ہیں ہر بار اک نیا وعدہ

میں جانتا ہوں وہ ہر بار جھوٹ بولتے ہیں


ہر ایک بات پہ کہتے ہیں جو کہ "میں ہوں نا"

میاں نذیری وہ مکار جھوٹ بولتے ہیں


       مسیح الدین نذیری                      

15 اکتوبر، 2020

جھوٹ کو سچ سچ کو جھوٹا کر رہاہے

........ غزل...........

جھوٹ کو سچ سچ کو جھوٹا کر رہاہے
نام کیوں پرکھوں کا رسوا کر رہا ہے
آدمی بن جائے بس کافی یہی ہے 
آدمی کو کیوں فرشتہ کر رہا ہے
روز ہم کوڑے میں کھانا پھینکتے ہیں
اور مفلس روز فاقہ کر رہا ہے
اپنے بچے کو کفن دینے کی خاطر
اک فقیر شہر چندہ کر رہا ہے
ہر نئی ایجاد پر دیکھو ٹھہر کر
خود کو انساں کتنا تنہا کر رہا ہے
گم ہے تو اتنا کہ تیرا باپ تجھ سے
روز ملنے کی تمنا کر رہا ہے
ہر قدم تیرا ہو بامقصد نذیری
کس لئے آیا ہے تو کیا کر رہا ہے

مسیح الدین نذیری

ہوا ‏ہے ‏فیصلہ ‏کل ‏شب ‏درون ‏خانۂ ‏عشق

14 اکتوبر، 2020

اس قدر بھی نہ کبھی آپ کا معیار گرے

 ۔۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس قدر بھی نہ کبھی آپ کا معیار گرے

آپ کی ذات پہ کیچڑ سرِ بازار گرے


کبھی اس پار گرے ہم کبھی اس پار گرے

اپنی لَے چھوڑدی جب ہم نے کئی بار گرے


جان جاتی ہے چلی جائے مگر ناممکن

جاکے زردار کے در پر کوئی خود دار گرے


فن سے تہذیب کی تعمیر ہے ممکن لیکن 

شرط لازم ہے نہ تہذیب سے فنکار گرے


ہم نے غیرت کا کوئی فرض نبھایا بھی نہیں 

اور امید ہے یہ ظلم کی دیوار گرے


اے خدا غیب سے آثار کوئی نصرت کے

جتنے اب تک نظر آتے تھے وہ آثار گرے


خود پسندی کے ترے شہر میں دیکھا اکثر

بھیڑ اتنی کہ کئی آئینہ بردار گرے


اپنے اسلاف کی غیرت کا بھرم تو رکھو

شیخ اتنا بھی نہ جھک جاؤ کہ دستار گرے


ہم لڑے آخری فوجی کی طرح میداں میں

اور پھر تھک گئے ہم اتنے کہ ناچار گرے


حوصلے پھر سے جگا خود میں کچھ ایسا جس سے

پھر سے قدموں میں ترے رفعتِ کہسار گرے


زندگی تھی تو تمنائیں بہت کچلی تھیں 

پھول اب آکے مری قبر پہ بیکار گرے


لوگ گر کر بھی سنبھل جاتے ہیں اس دنیا میں 

ہم سنبھلنے کے ارادے سے کئی بار گرے


صبح دم پڑھئے جو اخبار تو وہ خبریں ہیں 

کپکپی دل پہ ہو اور ہاتھ سے اخبار گرے


صرف رسوائیاں دیکھی ہیں نذیری ہم نے

جب سے ان ہاتھوں سے میدان میں ہتھیار گرے


مسیح الدین نذیری